اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۸

اصل الفاظ ہیں وَاِنْ تَظَاھَرَ ا عَلَیْہِ تَظَا ھُر کے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ  کیا ہے: ”اگر باہم متفق شوید بر رنجا نیدنِ پیغمبر۔“ شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے: ”اگر تم دونوں چڑھائی کرو گیاں اُس پر۔“ مولانا اشرف علی  صاحب کا ترجمہ ہے:”اور اگر اسی طرح پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں  کاروائیاں کرتی رہیں۔“ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب  نے اِس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے ” اگر تم دونوں اِسی طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں۔“
آیت کا خطاب صاف طور پر دو خواتین کی طرف ہے ، اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں سے ہیں، کیونکہ اِس سورے کی پہلی آیت سے پانچویں آیت تک مسلسل حضور ؐ  کی ازواج کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہیں۔ اس حد تک تو  بات خود قرآن مجید کے اندازِ بیان سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دونوں بیویاں کون تھیں ، اور وہ معاملہ کیا تھا جس پر یہ عتاب ہوا ہے، اِس کی تفصیل ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ مُسند احمد، بخاری، مُسلم، تِرمِذی اور نَسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس  کی ایک مفصّل روایت نقل ہوئی ہے جس میں کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ یہ قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں ایک مدت سے اِس فکر میں تھا کہ حضرت عمر ؓ سے پوچھوں کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں تھیں  جنہوں نے حضور ؐ کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر لی تھی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی ہے کہ اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا۔ لیکن اُن کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر ایک مرتبہ وہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور میں اُن کے ساتھ گیا۔ واپسی پر راستہ میں ایک جگہ اُن کو وضو کراتے ہوئے  مجھے موقع مل گیا اور میں نے یہ سوال  پوچھ لیا۔ انہوں نے جواب  دیا وہ عائشہ ؓ  اور حفصہ ؓ  تھیں۔ پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ  ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھنے کے عادی تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر اُن کی بیویاں حاوی تھیں ، اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی اُن سے سیکھنے لگیں۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے ( اصل الفاظ ہیں فَاِذَا ھِیَ تُرَاجِعُنِیْ)۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے۔ اس نے کہا آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کو جواب دوں؟ خدا کی قسم، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں حضور ؐ  کو دُوبدو جواب دیتی ہیں (اصل لفظ ہے لِیُرا جِعْنَہٗ) اور ان  میں سے کوئی حضور ؐ سے دن دن بھر روٹھی رہتی ہے(بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور ؐ اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں)۔ یہ سُن کر میں گھر سے نکلا  اور حَفصہ ؓ کے ہاں گیا ( جو حضرت عمر ؓ  کی بیٹی اور حضور ؐ  کی بیوی تھیں)۔ میں نے اُس سے پوچھا کیا تُو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو بدو جواب دیتی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضور ؐ سے روٹھی رہتی ہے؟ (بخاری کی روایت  میں ہے کہ حضور  ؐ دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں)۔ اس نے کہا ہاں۔ میں نے کہا نا مراد ہو گئی اور گھاٹے میں پڑ گئی وہ عورت جو تم میں سے ایسا کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس  بات سے بے خوف ہو گئی  ہے کہ اپنے رسول ؐ  کے غضب کی وجہ سے اللہ اس پر غضبناک ہو جائے اور وہ ہلاکت میں پڑ جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی  زبان درازی نہ کر( یہاں بھی وہی الفاظ ہیں لَا تُراجِعِیْ)  اور نہ اُن سے کسی چیز کا مطالبہ کر ، میرے مال سے تیرا جو جی چاہے مانگ لیا کر۔ تُو اس بات  سے کسی دھوکے میں نہ پڑ کہ تیری پڑوسن (مراد   ہیں حضرت عائشہ ؓ ) تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو  زیادہ محبوب ہے۔ اِ س کے بعد  میں وہاں سے نکل اُمِّ سَلَمہ ؓ  کے پاس پہنچا جو میری رشتہ دار تھیں ، اور مَیں نے اِس معاملہ میں ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ابن خطاب تم بھی عجیب آدمی ہو۔  ہر معاملہ میں تم نے دخل دیا یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے چلے ہو۔ اُن کی اس بات نے میری ہمت توڑ دی۔ پھر ایسا ہوا کہ میرا ایک انصاری پڑوسی رات کے قریب میرے گھر آیا اور اس نے مجھے پکارا۔ ہم دونوں باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور جو بات کسی کی باری کے دن ہوتی تھی  وہ دوسرے کو بتا دیا کر تا تھا۔ زمانہ وہ تھا جب ہمیں غَسّان کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا۔ اُس کے پکارنے پر جب میں نکلا تو اُس نے کہا ایک بڑا حادثہ پیش آگیا ہے۔ میں نے کہا کیا غَسّانی چڑھ آئے ہیں؟ اس نے کہا نہیں، اس سے بھی زیادہ بڑا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نا مراد ہوگئی حفصہ، (بخاری کے الفاظ ہیں رَغِمَ اَنْفُ حَفصَۃ و عَا ئِشَۃ) مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا  کہ یہ ہونے والی بات  ہے۔“
اس کے آگے کا قصہ ہم نے چھوڑ دیا ہے جس میں حضرت عمر ؓ  نے بتایا ہے کہ دوسرے روز صبح حضور ؐ کی خدمت میں جا کر انہوں نے کس طرح حضور ؐ  کا غصّہ ٹھنڈا کر نے کی کوشش کی۔ اس قصّے کو ہم نے مسند احمد اور بخاری کی روایات جمع کر کے مُرَّب کیا ہے۔ اس میں حضرت عمر ؓ نے مُراجَعَت کا لفظ استعمال کیا ہے اُسے لُغوی معنی میں نہیں لیا جا سکتا بلکہ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ یہ لفظ دُوبدُو جواب دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے،  اور حضرت عمر ؓ کا اپنی بیٹی سے یہ کہنا کہ لا تراجعنی رسُول اللہ صاف طور پر اس معنی میں ہے کہ حضور ؐ سے زبان درازی نہ کیا کر۔ اس  ترجمے کو بعض لوگ غلط کہتے ہیں اور ان کا اعتراض یہ  ہے کہ مراجعت کا ترجمہ پلٹ کر جواب دینا ، یا دوبدو جواب  دینا تو صحیح ہے، مگر اس کا ترجمہ”زبان درازی“ صحیح نہیں ہے۔ لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے، یا دو بدو جواب دے تو اسی کا  نام زبان درازی ہے۔ مثلاً باپ اگر بیٹے کو کسی بات پر ڈانٹے یا اس کے کسی فعل پر ناراضی کا اظہار کرے اور بیٹا اس پر ادب سے خاموش رہنے یا معذرت کرنے کے بجائے پلٹ کر جواب دینے پر اتر آئے تو اس کو زبان درازی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر جب یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور امت کے کسی فرد کے درمیان ہو تو صرف ایک غبی آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا نام زبان درازی نہیں ہے۔
بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمے کو سُوء ادب قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ سُوءِ ادب اگر ہو سکتا تھا تو اُس صورت میں جبکہ ہم اپنی طرف سے اِس طرح کے الفاظ حضرت حفصہ ؓ کے متعلق استعمال کرنے کی جسارت کرتے۔ ہم نے تو حضرت عمر ؓ کے الفاظ کا صحیح مفہوم ادا کیا ہے، اور یہ الفاظ انہوں نے اپنی بیٹی کو اُس کے قصور پر سرزنش کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں۔ اِسے سُوءِ ادب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو باپ اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے بھی ادب سے بات کرے، یا پھر اس ڈانٹ کا ترجمہ کرنے والا اپنی طرف سے اس کو با ادب کلام بنا دے۔

اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضور ؐ  کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دیا کرتی تھیں ، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست خود اِن ازواجِ مطہرات کو شدّت کے ساتھ تنبیہ فرمائی؟ اور حضرت عمر ؓ نے اس معاملہ کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواجِ مطہرات میں سے ایک  ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زور رنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہو جاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضور ؐ کی تنک مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی ہی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ؐ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہو گئے تھے؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یا تو اسے ازواج مطہرات کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ  پر حرف آجانے کی پروا  نہ کرے۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اُس زمانہ میں اِن ازواجِ مطہرات کا  رویّہ فی الواقع ایسا ہی قابل اعتراض ہوگیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہو جانے میں حق بجانب تھے اور حضور سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات میں حق بجانب تھا کہ  اِن ازواج کو اس رویّہ پر شدّت سے تنبیہ فرمائے۔