اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورۃ التحریم

 

                                                       
۲
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام:  پہلی ہی آیت کے الفاظ لِمَ تُحَرِّمُ سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے، بلکہ اس نام سے مُراد یہ ہے کہ  یہ وہ سورہ ہے جس میں تحریم کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول:  اِس میں تحریم کے جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق احادیث کی روایات میں دو خواتین کا ذخر آیا ہے جو اُس وقت حضورؐ کے حرم میں تھیں ۔ ایک حضرت صفیہؓ ۔ دوسری حضرت ماریہِ قِبْطِیّہؓ ۔ ان میں سے ایک ، یعنی حضرت صَفِیّہ فتح خیبر کے بعد حضورؐ کے نکاح میں آئیں، اور خیبر کی فتح بالاتفاق سن ۷ ہجری میں ہوئی ہے۔ دوسری خاتون ماریہ کو سن ۷ ہجری میں مصر کے فرمانروا مُقَوْقِس نے حضورؐکی خدمت میں ارسال کیا تھا اور اُن کے بطن سے ذی الحجہ سن ۸ ہجری میں حضورؐکے فرزند حضرت ابراہیمؓ  پیدا ہوئے تھے۔ ان تاریخی واقعات سے یہ بات قریب قریب متعین ہو جاتی ہے کہ اس سُورہ کا نزول سن ۷ ہجری یا  سن ۸ ہجری کے دوران میں کسی وقت ہوا ہے۔

موضوع اور مباحث:    یہ ایک بڑی اہم سُورۃ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواجِ مطہرات کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمّاتِ مسائل پر روشنی  ڈالی گئی ہے۔
          ایک یہ کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختیارات قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اور عام انسان تو درکنار، خود اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کی طرف بھی اُن کا کوئی حصّہ منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ نبی بحیثیتِ نبی اگر کسی چیز کو حرام یا حلا ل قرار دے سکتا ہے تو صرف اُس صورت میں جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اشارہ ہو، قطعِ نظر اس سے کہ وہ اشارہ قرآن مجید میں نازل ہو ا ہو، یا وحی خفی کے طور پر کیا گیا ہو۔ لیکن بطورِ خود اللہ تعالیٰ کی مباح کی ہوئی کسی چیز کو حرام کر لینے کا مجاز نبی بھی نہیں ہے کجا کہ کوئی اور شخص ہو سکے۔
          دوسرے یہ کہ انسانی معاشرہ میں نبی کا مقام انتہائی نازک مقام ہے۔ ایک معمولی بات بھی، جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پیش آئے تو چنداں اہمیت  نہیں رکھتی ، نبی کی زندگی میں اگر پیش آجائے تو وہ قانون کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السّلام کی زندگی پر ایسی کڑی نگرانی رکھی گئی ہے  کہ ان کا کوئی ادنیٰ اِقدام بھِ منشاء الہٰی سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ایسا کوئی فعل بھی اگر نبی سے صادر ہوا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کر دی گئی ہے تا کہ اسلامی قانون اور اس کے اصول اپنی بالکل صحیح صورت میں نہ صرف خدا کی کتاب ، بلکہ نبی کے اُسوہ ٔ حسنہ  کی صورت میں بھی خدا کے بندوں تک پہنچ جائیں اور ان میں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز  ایسی شامل نہ ہو نے پائے جو منشاءِ الہٰی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔
          تیسری بات جو مذکورۂ بالا نکتہ سے خود بخود نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹوک دیا گیا اور نہ صرف اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیا گیا ، تو یہ چیز قطعی طور پر ہمارے دل میں یہ اطمینان پیدا کر دیتی ہے کہ حضورؐکی حیاتِ طیّبہ میں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدایات بھی ہمیں اب ملتے ہیں ، اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت یا اصلاح یریکارڈ پر موجود نہیں ہے، وہ سراسر حق ہیں، اللہ کی مرضی سے پُوری مطابقت رکھتے ہیں ، اور ہم پُورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
          چوتھی بات جو اِس کلام میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس رسولِ مقدس کی عزت و حُرمت کو اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کے حق میں لازمہ ٔ  ایمان قرار دیتا ہے اُسی کے متعلق اِس سُورہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اُس نے اپنی بیویوں کے خوش کرنے کے لیے ایک مرتبہ اللہ کی حلال کی ہوئی ایک چیز اپنے اوپر حرام کر لی۔ اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ خود تمام اہلِ ایمان کی ماں قرار دیتا ہے اور جن کے احترام کا اس نے خود مسلمانوں کو حکم دیا ہے انہی کو اس نے بعض غلطیوں پر اِس سُورۃ میں شدّت سے تنبیہ فرمائی ہے۔ پھر  نبی پر یہ گرفت اور ازواجِ مطہرات کو یہ تنبیہ بھی خفیہ طور پر  نہیں کی گئی بلکہ اُس کتاب میں درج کر دی گئی  جسے تمام اُمّت کو ہمیشہ ہمیشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ میں اِس ذکر کا  منشا  نہ یہ تھا ، نہ یہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور امہات المومنین کو اہلِ ایمان کی نگاہوں سے گرا دینا چاہتا تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی یہ سورۃ پڑھ کر کسی مسلمان کےدل سے ان کا احترام اُٹھ نہیں گیا ہے۔ اب قرآن میں یہ ذکر لانے کی مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کی صحیح حدوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے ۔ نبی، نبی ہے، خدا نہیں ہے کہ اس سے کوئی لغزش نہ ہو۔ نبی کا احترام اس بنا پر نہیں ہے کہ اس سے لغزش کا صدور  نا ممکن ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مرضی الہٰی کا مکمل نمائندہ ہے اور اس کی ادنیٰ سی لغزش کو بھی اللہ نے اصلاح کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے جس سے ہمیں یہ اطمینان نصیب ہو جاتا ہے کہ نبی کا چھوڑا ہوا اُسوۂ  حسنہ اللہ کی مرضی کی پُوری نمائندگی کر رہا ہے۔ اسی طرح صحابۂ کرام ہوں یا ازواجِ مطہرات ، یہ سب انسان تھے، فرشتے یا فوق البشر  نہ تھے۔ اُن سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ اُن کو جو  مرتبہ بھی حاصل ہوا اِس وجہ سے ہوا  کہ اللہ کی رہنما ئی اور  اللہ کے رسول ؐ  کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا ۔ اُن کو جو کچھ بھی احترام ہے اسی بنا پر ہے، نہ کہ اِس مفروضے پر کہ وہ کچھ ایسی ہستیاں تھیں جو غلطیوں سے بالکل مبرّا تھیں۔ اِسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں صحابہ یا ازواج مطہرات سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا اُس پر ٹوکا گیا۔ اُن کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضورؐنے کی جس کا ذکر احادیث میں بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالیٰ نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان کبھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصوّر نہ قائم کر لیں جو انہیں انسانیت کے مقام سے اٹھا کر دیویوں اور دیوتاو ٔ ں کے مقام پر پہنچا دے۔ آپ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھیں کھول کر کریں تو اِس کی پے در پے مثالیں آپ کے سامنےآئیں گی۔ سُورۂ آلِ عمران میں جنگِ اُحُد کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا:
”اللہ نے(تائید و نصرت) کا جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پُورا کر دیا  جبکہ اُس کے اذن سے تم اُن کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جو نہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی  جس کی محبت میں تم گرفتار تھے(یعنی مالِ غنیمت) تم حکم کی نافرمانی کر بیٹھے،  تم میں سے کوئی دنیا کا طالب تھا اور کوئی آخرت کا طلب گار ، تب اللہ نے تمہیں اُن کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا، اللہ مومنوں پر بڑا فضل  فرمانے  والا ہے“(آیت ۱۵۲)۔
سُورۂ نُور میں حضرت عائشہ پر تُہمت کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ ؓ  سے فرمایا گیا:
”ایسا کیوں  نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اِسے سُنا تھا اُسی وقت مومن مرد اور عورتیں ، سب اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو صریح بہتا ن ہے؟ ۔۔۔۔ اگر تم لوگوں پر دُنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا۔ ذرا غور کرو ، جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اِس  قصّے کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اِسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں  نہ اِسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے؟ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو “(آیات ۱۲تا ۱۷)۔
سُورہ ٔ اَحزاب میں ازواجِ مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:
”اَے نبی اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے “(آیات ۲۸ تا ۲۹)۔
سُورۂ جُمعہ میں صحابہ ؓ  کے متعلق فرمایا:
”جب انہوں نے کاروبارِ تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ گئے اور (اے نبی) تم کو(خطبے میں) کھڑا چھوڑ دیا۔ اِن سے کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے“(آیت۱۱)۔
سُورہ ٔ مُمتَحِنہ میں ایک بدری صحابی حضرت حاطِب ؓ  بن ابی بَلْتَعَہ کے اِس فعل پر سخت گرفت کی گئی کہ انہوں نے فتح مکہ سے پہلے حضورؐکے حملے کی خُفیہ اطلاع کفّارِ قریش کو بھیج دی تھی۔
یہ ساری مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں، اُسی قرآن میں جس میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ اور ازواج مطہرات کے فضل و شرف کو خود بیان فرمایا ہے اور اُنہیں رضی اللہ عنہم و رَضُوا عَنہ کا پروانہء خوشنودی عطافر مایا ہے۔ بزرگوں کے احترام کی یہی مبنی بر اعتدال تعلیم تھی جس نے مسلمانوں کو انسان پرستی  کے اُس ھاوِیہ میں گرنے سے بچایا جس میں یہود و نصاریٰ گر گئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کے موضوعات پر جن اکابرِ اہلِ سنّت نے کتابیں مرتّب کی ہیں ان میں جہاں صحابہء کرام اور ازواجِ مطہرات اور دوسرے بزرگوں کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں، ان کی کمزوریوں اور لغزشوں اور غلطیوں کے واقعات بیان کرنے میں بھی تامّل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ آج کے مدعیانِ احترام کی بہ نسبت وہ اِن بزرگوں کے زیادہ قدر شناس تھے اور اِن سے زیادہ حدودِ احترام کو جانتے تھے۔
          پانچویں بات جو اس سُورہ میں کھول کر بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا دین بالکل بے لاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعًا نافع نہیں ہے اور کسی بُری سے بُری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملہ میں خاص طور پر ازواجِ مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطورِ مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت نوح ؑ ارو حضرت لُوط ؑ کی بیویوں کی ہے ، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو ان کا مقام امّتِ مُسلِمہ میں وہی ہوتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کا ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے اِس کے برعکس رویّہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنّم کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی کی ہے۔ جو اگرچہ ایک بدترین دشمنِ خدا کی بیوی تھیں ، لیکن چونکہ وہ ایمان  لے آئیں اور انہوں نے قومِ فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کر لیا، اس لیے فرعون جیسے اکفر الکا فرین کی بیوی ہونا بھی اُن کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کا مستحق بنا دیا۔ تیسری مثال حضرت مریم علیہا السّلام کی ہے  جنہیں یہ مرتبہءعظیم اس لیے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ حضرت مریم ؑ  کے سوا دنیا میں کسی شریف اور نیک لڑکی کو کبھی ایسی سخت آزمائش میں نہیں ڈالا گیا کہ کنوار پنے کی حالت میں اللہ کے حکم سے اس کو معجزے کے طور پر حاملہ کر دیا گیا ہو اور اُسے بتا دیا گیا ہو کہ اُس کا رب اُس سے کیا خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب حضرت مریم  ؑ  نے اِس پر کوئی واویلا  نہ کیا بلکہ ایک سچّی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ برداشت کرنا قبول کر لیا جو اللہ کی مرضی پُوری کرنے کے لیے برداشت کرنا ناگزیر تھا، تب اللہ نے ان کو سیّدۃ النسَآ ء فی الجنۃ (مُسند احمد) کے مرتبہ ء عالی پر سرفراز فرمایا۔
اِن اُمور کے علاوہ ایک اور اہم حقیقت جو اِس سُورۃ سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف وہی علم نہیں آتا تھا جو قرآن میں درج ہوا ہے ، بلکہ آپؐ  کو وحی کے ذریعہ سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی صریح دلیل اِس سُورۃ کی آیت ۳ ہے۔ اُس میں بتایا گیا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات میں سے ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور اُنہوں نے وہ کسی اور کو بتا دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کر دیا۔ پھر جب حضورؐ نے اِس غلطی پر اپنی اُن بیوی کو تنبیہ فرمائی ، اور انہوں نے پوچھا کہ آپؐ کو میری یہ غلطی کس نے بتائی تو حضورؐنے جواب دیا کہ مجھے علیم و خبیر ہستی نے اس کی خبر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پُورے قرآن میں کہاں وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو کہ”اَے نبی، تم نے اپنے بیوی سے راز میں جو بات کہی تھی وہ اُس نے کسی اور پر ، یا فلاں شخص پر ظاہر کر دی ہے“؟ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے ، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو یہ اِس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس سے منکرینِ حدیث کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے سوا اور کوئی وحی نہیں آتی تھی۔

www.tafheemulquran.net