اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۶

مختلف روایات میں مختلف باتوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں بات تھی جو حضور  ؐ  نے اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی اور اُن کی بیوی نے ایک دوسری بیوی سے اس کا ذکر کر دیا۔ لیکن ہمارے نزدیک اوّل تو اُس کا کھوج لگانا صحیح نہیں ہے ،  کیونکہ راز  کے افشا کرنے پر ہی تو اللہ تعالیٰ یہاں ایک بیوی کو ٹوک رہا ہے ، پھر ہمارے لیے کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم اُس کی ٹٹول کریں اور اسے کھولنے کی فکر میں لگ جائیں۔ دوسرے، جس مقصد کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے لحاظ سے یہ سوال سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ راز کی بات تھی کیا۔ مقصود ِ کلام سے اِس کا کوئی تعلق ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے خود بیان فرما دیتا۔ اصل غرض جس کے لیے اِس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ، ازواجِ مطہرات میں سے ایک کو اس غلطی پر ٹوکنا  ہے کہ اُن کے عظیم المرتبہ شوہر نے جو بات راز میں اُن سے فرمائی تھی اُسے انہوں نے راز نہ رکھا اور اس کا اِفشا کر دیا۔ یہ محض ایک نجی معاملہ ہوتا، جیسا دنیا کے عام میاں اور بیوی کے درمیان ہوا کرتا ہے، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست وحی کے ذریعہ سے حضور ؐ کو اس کی خبر دیتا اور پھر محض خبر دینے ہی پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اسے اپنی اُس کتاب میں بھی درج کر دیتا جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساری دنیا کو پڑھنا ہے ۔ لیکن اسے یہ اہمیت جس وجہ سے دی گئی وہ یہ تھی کہ وہ بیوی  کسی معمولی شوہر کی نہ تھیں بلکہ اُس عظیم ہستی کی بیوی تھیں جسے اللہ تعالیٰ  نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا، جسے ہر وقت کفارو مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سےسابقہ درپیش تھا، جس کی قیادت میں کفر کی جگہ اسلام کا نظام  برپا کرنے کے لیے ایک  زبردست جدوجہد ہو رہی تھی۔ایسی ہستی کے گھر میں بےشمار ایسی باتیں ہو سکتی تھیں جو اگر راز نہ رہتیں اور قبل  از وقت ظاہر ہو جاتیں  تو اُس کارِ عظیم کو نقصان پہنچ سکتا تھا جو وہ ہستی انجام دے رہی تھی۔ اس لیے جب اُس گھر کی ایک خاتون سے پہلی مرتبہ یہ کمزوری صادر ہوئی  کہ اُس نے ایک ایسی بات کو جو راز میں اُس سے کہی گئی تھی کسی اور پر ظاہر کر دیا(اگرچہ وہ کوئی غیر نہ تھا بلکہ اپنے ہی گھر کا ایک فرد تھا) تو اس  ہر فوراً ٹوک دیا گیا، اور درپردہ نہیں بلکہ قرآن مجید میں برملا ٹوکا گیا  تاکہ نہ صرف  ازواجِ مطہرات کو بلکہ مسلم معاشرے کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دے جائے۔  آیت میں اس سوال کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ  جِس راز کی بات کو اِفشا کیا گیا تھا وہ کوئی خاص اہمیت رکھتی تھی  یا نہیں، او ر اِس کے اِفشا سے کسی نقصان کا  خطرہ تھا یا نہیں۔  گرفت بجائے خود اس امر پر کی گئی ہے  کہ راز کی بات کو دوسرے سے بیان کر دیا گیا۔  اس لیے  کہ کسی ذمہ دار ہستی کے گھر والوں میں اگر یہ کمزوری موجود ہو  کہ وہ رازوں کی حفاظت میں تساہل برتیں تو آج ایک غیر اہم راز افشا ہوا ہے، کل کوئی اہم راز افشا ہو سکتا ہے۔ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہو گا  اُتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے،  اُن کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری کسی بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے۔