اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۴

مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قَسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ مائدہ ، آیت ۸۹ میں مقرر کر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اُس عہد کو توڑ دیں جو آپ ؐ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اُس صورت کے لیے ہے کہ جبکہ آدمی نے قسم کھا  کر حلال کر حرام کر لیا ہو، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں؟ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو ، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز ، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو  یہ ایک لغو  بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کر سکتا ہے جسے اُس نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے مسْرُوق ، شَعْبی، رَبِیعَہ اور ابو سَلَمَہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریّوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اُس صورت میں قَسم  ہے جب کہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کر نے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی ، جیسا کہ متعدد روایات میں بیا ن ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور ؐ سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کر دیا ہے  اس پر عمل کریں۔
دوسرا گروہ  کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کر لینا بجائے خود قسم تو نہیں ہے ، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنٰی ہے۔ دوسری اشیاء ، مثلاً کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ لغو ہے، کوئی کفّارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہو کہ اُس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے  تو وہ حرام تو نہ ہوگی، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفّارہ ٔ یَمین لازم آئے گا۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے(مُغْنِی المحتاج)۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے (احکام القرآن لابن العربی)۔
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قَسم کے الفاظ استعمال  نہ کیے گئے ہوں۔ یہ رائے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی ہے۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں نقل ہوئی ہے کہ اذا حرّم امر ا ٔ  تَہ فلیس بشی ءٍ (اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو  یہ کچھ نہیں ہے)، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی  ہے کہ اُن کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ قسم ہے اور اس پر کفارہ ہے ، کیونکہ بخاری ، مسلم، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہو ا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفّارہ ہے، اور نَسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ” وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفّارہ لازم ہے“، اور ابن جَرِیر کی روایت میں ابن عباس کے الفاظ  یہ ہیں: ”اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسے اللہ نے حلال کیا ہے تو ان پر لازم ہے کہ اپنے قَسَموں کا کفارہ ادا کریں۔“ یہی رائے حسن بصری، عطاء، طاؤس ، سلیمان بن یَسار، ابن جُبَیر اور قَتَادہ کی ہے، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے۔ امام ابوبکر  جَصّاص کہتے ہیں کہ”آیت لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَکَ کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے تحریم کے ساتھ قَسم بھی کھائی تھی، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم ہے، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِسی تحریم کے معاملہ میں قسم کا کفارہ واجب  فرمایا۔“آگے چل کر پھر کہتے ہیں”ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ)  نے تحریم کو اُس صورت میں قسم قرار دیا ہے کہ جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ  ہو۔ اگر کسی شخص نے بیوی کر حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے قریب نہیں آو ٔ ں گا، اس لیے وہ اِیلاء کا مرتکب ہوا۔ اور اگر اس نے کسی کھانے  پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں وہ چیز استعمال نہ کروں گا ۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا کہ” آپ اُس  چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے“ ، اور پھر فرمایا کہ” اللہ نے تم لوگوں کے لیے قَسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ  مقرر کر دیا ہے“۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم  اور حکمِ شرعی میں قَسم کا ہم معنی ہو گیا۔
اِس مقام پر فائدہ ٔ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہو تا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کر لینے کے معاملہ میں فقہا کے نزدیک شرعی حکم  کیا ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں  کہ اگر طلاق کی نیّت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کو اپنے  لیے حرام کیا ہو، یا قسم کھائی ہو کہ اس سے مُقاربت نہ کرے گا ، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے یہ کہا ہو کہ تو میرےاوپر حرام ہے تو معلوم  کیا جائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی تو تین واقع ہونگی اور اگر اس سے کم کی نیت تھی ، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی ، تو دونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہو گی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہو گیا ، تو اس کا اِطلاق بیوی پر اُس وقت تک نہ ہوگا جب تک  اُس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ  نہ کہے ہوں۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اُس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کر سکتا جب تک قَسَم کا کفّارہ ادا نہ کردے(بدائع الصَّنائِع ، ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصّاص)۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظِہار کی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہو گی وہ واقع ہو جائے گی۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو  رجعی، بائن کی نیت ہو تو بائن، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعال کیے ہوں تو اُس سے کہا جائے گا کہ دونوں میں سے  کسی ایک چیز کو اختیار کر لے۔ کیونکہ طلاق و ظہار، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے، اور ظہار  کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقًا بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہو گی مگر قَسم کا کفّارہ لازم آئے گا۔ اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہو تو یہ لغو  ہے ، اس پر کوئی کفّارہ نہیں ہے(مُغْنِی المحتاج)۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو   نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ اسے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے ، یا میرے لیے حرام ہے ، یا میں تیرے لیے حرام ہوں، تو خواہ  مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے، ہر صورت میں یہ تین طلاق ہیں، الّا یہ ہے کہ اس نے تین سے کم کی نیت  کی ہو۔ اَصْبَغ کا قول ہے  کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جو کچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے تو جب تک وہ بیوی کو مستثنٰی نہ کرے، اس سے بیوی کو تحریم بھی لازم آجائے گی۔ المُدوَّ نہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ  کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سے  تین ہی طلاقیں پڑیں گی، خواہ نیت کچھ بھی ہو، لیکن غیر مدخولہ کے معاملہ میں  اگر نیت کم کی ہو تو جتنی طلاقوں کی نیت کی گئی ہے اُتنی ہی پڑیں گی، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہو تو پھر یہ تین طلاقیں ہوں گی( حاشیۃ الدُّسُوقی)۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالک  ؒ کے تین قول نقل کیے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاقِ بائن ہے  ۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہر حال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو تو ایک ہی طلاق پڑے گی۔ پھر کہتے ہیں کہ”صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگر آدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعیّن نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔“

امام احمد بن حنبل ؒ سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم، یا حلال کو مطلقًا اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظِہار کی نیت ہو یا نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ یہ طلاق کا صریح کنایہ ہے  اور اس سے تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قَسَم ہے، الّا یہ کہ آدمی نے طلاق یا  ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو، اور اِس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہو گی۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہب ِ حنبلی میں مشہور ترین ہے (الانصاف)۔