اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۲۲

اِس آیت کو سُورہ ٔ حدید کی آیات ۱۳-۱۲ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہلِ ایمان کے آگے آگے نُور کے دوڑنے کی یہ کیفیت اُس وقت پیش آئے گی جب وہ میدانِ حشر سے جنت کی طرف جارہے ہونگے۔ وہاں ہر طرف گھُپ اندھیرا ہو گا جس میں وہ سب لوگ ٹھوکریں کھارہے ہونگے جن کے حق میں دوزخ کا فیصلہ ہوگا، اور روشنی صرف اہلِ ایمان کے ساتھ ہو گی جس کے سہارے وہ اپنا  راستہ طے کر رہے ہونگے۔ اس نازک موقع پر تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگوں کی آہ و فغاں سُن سُن کر اہلِ ایمان پر خَشِیّت کی کیفیت طاری ہو رہی ہو گی، اپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کر کے انہیں اندیشہ لاحق ہو گا کہ کہیں ہمارا نُور بھی نہ چھِن جائے اور ہم اِن بد بختوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے نہ رہ جائیں، اس لیے وہ دعا کریں گے کہ اَے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور  ہمارے نُور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  کا قول نقل کیا ہے کہ  رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کے معنی یہ ہیں کہ  ” وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ان کا نُور اُس وقت تک  باقی رکھا جائے اور اُسے بجھنے نہ دیا جائے جب تک وہ  پُل صراط سے بخیریت نہ گزر جائیں۔“ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور ضحّاک  کی تفسیر بھی قریب قریب یہی ہے۔ ابن کثیر نے ان کا یہ قول نقل کیا  ہے کہ ” اہلِ ایمان جب یہ دیکھیں گے کہ منافقین نُور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللہ سے تکمیلِ نُور کی دعا کریں گے۔“(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، لحدید، حاشیہ ۱۷)۔