اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۲

اس سے معلوم ہوا کہ حضور ؐ نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ آپ ؐ کی بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ؐ ایسا کریں اور آپ ؐ نے محض اُن کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم کے اِس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اُس کی اِس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصودِ کلام صرف تحریمِ حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اُس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اُس کو بطورِ خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصد صرف حضور ؐ ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ اُنہوں نے ازواجِ  نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا  اور حضور ؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔
اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور ؐ  نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے  جو اِس آیت کے نزُول کا سبب بنے ۔ ایک واقعہ حضرت ماریہء قِبطیَہ ؓ   کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہدا ستعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا تھا۔
حضرت ماریہ ؓ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہو نے کے بعد رسول اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کو بھیجے تھے اُن میں سے  ایک اسکندریہ کے  رومی بطریق  (Patriarch ) کے نام بھی  تھا جسے عرب مُقَو قِس کہتے تھے۔ حضرت حاطِب بن ابی بَلنَغہ نہ نامہء گرامی لے کر جب اس کے پاس پہنچے تو اُس نے اسلام تو قبول نہ کیا ، مگر اُن کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا  کہ”مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا  ابھی باقی ہے، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں “(ابن ِ سعد)۔ اُن لڑکیوں میں ایک سِیرِین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary  کہتے ہیں)۔ مصر  سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسان ؓ بن ثابت کی مِلک یمین میں دے دیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا۔ ذی الحجہ سن ۸ ہجری میں انہی کے بطن سے حضور  ؐ  کے صاحبزادے ابراہیم  پیدا ہوئے (اَلاِ ستِیعاب۔ الاِ صابہ)۔ یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں۔ حافظ  ابن حَجَر نے الاِصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”مجھے کسی عورت کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضور ؐ کو بہت پسند آئی تھیں۔“ اِن کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصّہ احادیث میں نقل ہو اہے کہ وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم حضرت حَفصہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور وہ گھر  پر موجود نہ تھیں۔ اُس وقت حضرت ماریہ آپ کے پاس  وہاں آگئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں۔ حضرت حفصہ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضور ؐ  سے اس کی سخت شکایت کی۔ اس پر آپ نے اُن کو راضی کر نے کے لیے اُن سے یہ عہد کر لیا کہ آئندہ ماریہ سے  کوئی ازدواجی تعلق نہیں رکھیں گے۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا ، اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نےاِ س پر قسم بھی کھائی تھی۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مُرسَلاً نقل ہوئی ہیں ، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان کی کثرت ِ طُرق کو دیکھتے ہوئے حافظ ابن حَجَر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اِس قصّے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ مگر صحاح ستّہ میں سے کسی میں بھی  یہ قصّہ نقل نہیں کیا گیا ہے۔ نَسائی میں حضرت اَنَس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ”حضور ؐ کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے۔ پھر حضرت حفصہ ؓ  اور حضرت عائشہ ؓ  آپ ؐ  کے  پیچھے پڑ گئیں یہاں تک کہ آپ ؐ نے اُسے اپنے اوپر حرام کر لیا۔ اِس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اَے نبی تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے؟“
دوسرا واقعہ بخاری ، مسلم ، ابو داو ٔ د، نَسائی اور دوسری متعدد کتبِ حدیث میں خود حضرت عائشہ  ؓ سے جس طرح نقل ہوا ہے  اس کا  خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواجِ مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہو ا کہ آپ حضرت زینب ؓ بنتِ جَحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر تک بیٹھنے لگے، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا  تھا، اور حضور ؐ کو شیرینی بہت پسند تھی، اس لیے آپ ؐ ان کے ہاں شہد کا شربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ  کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حَفصَہ ؓ ، حضرت سَودہ ؓ  اور حضرت صَفِیّہ ؓ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے  جس کے پاس بھی آپ  آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مَغافِیر کی بُو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بِساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے اندر بھی اس بساند کا اثر آجاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور ؐ  نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ ؐ  کو اِس سے سخت نفرت ہے کہ آپ ؐ  کے اندر کسی قسم کو بدبُو پائی جائے ۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب ؓ  کے ہاں ٹھیرنے سے روکنے کی خاطر یہ تدبیر کی گئی اور یہ کار گر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپ ؐ سے کہا کہ مُنہ سے مَغافیر کی بُو آتی ہے تو آپ ؐ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے۔ ایک روایت میں آپ ؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ فَلَنْ اَعُوْدَ لَہٗ وَقَدْ حَلَفْتُ ”اب میں ہر گز اسے نہ پیونگا ، میں نے قسم کھا لی ہے۔“ دوسری روایت میں صرف فلن اعود لہ کے الفاظ ہیں، و قد حلفت کا ذکر نہیں ہے۔ اور ابن عباس ؓ  سے جو روایت ابن المُنذِر ، ابن ابی حاتم، طَبَرانی اور ابن مَرْدُوْیَہ نے نقل کی ہے ا س میں یہ الفاظ ہیں کہ وَاللہِ لَا اشربُہ، ”خدا کی قسم میں اسے نہ پیونگا۔“

اکابر اہلِ علم نے اِن دونوں قصّوں میں سے اِسی دوسرے قصّے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصّے کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرایا ہے۔ امام نَسائی کہتے ہیں کہ ”شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ ؓ  کی حدیث نہایت صحیح ہے ، اور حضرت ماریہ ؓ کو حرام کر لینے کا قصّہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے۔“ قاضی عِیاض کہتے ہیں”صحیح یہ ہے کہ  یہ آیت ماریہ ؓ کے معاملہ میں نہیں ہے بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔“ قاضی ابوبکر ابن العربی بھی شہد ہی کے قصّے کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور یہی رائے امام نَوَوِی اور حافظ بدر الدین عَینی کی ہے۔ ابن ہُمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ ”شہد کی تحریم کا قصّہ صحیحین میں خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا، اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے۔“ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں”صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے کے بارے میں نازل  ہوئی ہے۔“