اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۱۹

اصل میں  توبۃً نَّصُوحًا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نُصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں۔ خالص شہد  کو عَسلِ  ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور اُدھڑے ہوئے کپڑے کو مرمت کر دینے کے لیے نَصَاحۃ الثَّوب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پس توبہ کو نَصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توبہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے ، تو بہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سنوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اس کی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اُسی کی طرح اپنی اصلاح کر لیں۔ یہ تو ہیں توبہ ٔ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں۔ رہا اس کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اُس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زِرّین حُبَیش کے واسطے سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اُبَیّ بن کعب ؓ سے توبہ ٔ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا۔ آپ ؐ نے فرمایا ” اِس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔“ یہی مطلب حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود اور حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمر ؓ  نے توبہ ٔ نصوح کی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار ، اُس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے(ابن جریر)۔ حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ ایک بدُّو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ تَوبۃُ الکذّابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا، اُس کے ساتھ  چھ چیزیں ہونی چاہییں(۱) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نادم ہو۔(۲) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو اُن کو  ادا کر۔(۳) جس کا حق مارا ہو اُس کو واپس کر۔(۴)جس کو تکلیف پہنچائی ہو اُس  سے معافی مانگ۔(۵) آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا۔ اور(۶) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھُلا دے جس طرح تُو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اُس کو طاعت کی تلخی کا مزاچکھا جس طرح اب تک  تُو اُسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔(کشّاف)

توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اوّل یہ کہ توبہ درحقیقت کسی معصیت  پر اس لیے نادم ہونا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کر لینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے، یا کسی بدنامی کا  ، یا مالی نقصان کا  موجب ہے، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ دوسرے  یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہو جائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے ، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر  اس کی تلافی کر دینی چاہیے، اُسے ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اُسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ  توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے، اور بار بار کی توبہ شکنی اس  بات کی علامت ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اُسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ  ہو گا ، البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ  سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی  کا مرتکب نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یا د آئے، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر اُس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اُس کے لیے لذّت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے۔ اس لیے کہ جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے  توبہ کی ہو وہ اِس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے۔ اُس سے لذّت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خدا کے خوف  نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے۔