اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۱۵

اصل میں لفظ سائحات استعمال ہوا ہے۔ متعدد صحابہ  اور بکثرت تابعین نے اس کے معنی صائمات بیان کیے ہیں۔ روزے کے لیے سیاحت کا لفظ  جس مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ  ہے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ  تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے، اور ان کے ساتھ کوئی زادِ راہ نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ان کو اُس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے۔ اِس بنا پر روزہ بھی ایک طرح کی درویشی ہی ہے  کہ جب تک افطار کا وقت نہ آئے روزہ دار بھی بھوکا رہتا ہے۔ ابن جریر نے سُورہ ٔ توبہ ، آیت ۱۲ کی تفسیر میں حضرت عائشہ ؓ  کا قول نقل کیا ہے کہ سیاحۃ ھذہ الامۃ الصیّام،”اس امت کی سیاحت (یعنی درویشی) روزہ ہے۔“ اِس مقام پر نیک بیویوں کی تعریف میں اُن کی روزہ داری کا ذکر اس معنی میں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ محض رمضان کے فرض روزے رکھتی ہیں، بلکہ اس معنی میں ہے کہ وہ فرض کے علاوہ نفل روزے بھی رکھا کرتی ہیں۔

ازواجِ مطہرات کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد   کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے میں اُن کو ایسی بیویاں عطا فرمائے گا جن میں یہ اور یہ صفات ہوں گی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازواجِ مطہرات یہ صفات نہیں رکھتی تھیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جس غلط روش کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت ہو رہی ہے اُس کو چھوڑ دو اور اُس کے بجائے اپنی ساری توجّہات اِس کوشش میں صرف کر دو کہ تمہارے اندر یہ پاکیزہ صفات بدرجہ ٔ اَتَم پیدا ہوں۔