اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۱

یہ  دراصل استفہام نہیں ہے بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ یعنی مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرنا نہیں  ہے کہ آپ ؐ نے یہ کام کیوں کیا ہے، بلکہ آپ ؐ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا جو فعل آپ ؐ سے صادر ہو اہے وہ اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے۔ اِس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کی اہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے ۔ اگرچہ حضور ؐ نے اُس چیز کو نہ عقیدہ  ٔ حرام سمجھا تھا اور نہ اُسے شرعًا حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اُس کے استعمال کو حرام کر لیا تھا، لیکن چونکہ آپ ؐ کی  حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسُول کی تھی، اور آپ ؐ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ امّت بھی اُس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے ، یا امّت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ  کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے اِس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ ؐ  کو اس  تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا۔