اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۷

ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد طلاق پربھی گواہ بنانا ہے اور رجوع پر بھی (ابن جریر)۔ حضرت عمران بن حصین سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس سے رجوع کر لیا، مگر نہ طلاق پر کسی کو گواہ بنایا نہ رجوع پر۔ انہوں نے جواب دیا’’ تم نے طلاق بھی سنت کے خلاف دی اور رجوع بھی سنت کے خلاف کیا۔ طلاق اور رجعت اور فرقت پر گواہ بنانا، ان افعال کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے کہ اگر گواہ نہ بنایا جائے تو نہ طلاق واقع ہو، نہ رجوع صحیح ہو اور نہ فرقت، بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ فریقین میں سے کوئی بعد میں کسی واقعہ کا انکار نہ کر سکے ، اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے ، اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہو جائے ۔ یہ حکم بالکل ایسا ہی ہے جیسے فرمایا: وَاَشْھِدُوْآاِذَا تَبَا یَعْتُمْ، ’’ جب تم آپس میں بیع کا کوئی معاملہ طے کرو تو گواہ بنا لو‘‘(بقرہ۔ 282)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیع پر گواہ بنانا فرض ہے اور اگر گواہ نہ بنایا جائے تو بیع صحیح نہ ہو گی، بلکہ یہ ایک حکیمانہ ہدایت ہے جو نزاعات کا سد باب کرنے کے لیے دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنے ہی میں بہتری ہے ۔ اسی طرح طلاق اور رجوع کے معاملہ میں بھی صحیح بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر فعل گواہیوں کے بغیر بھی قانوناً درست ہو جاتا ہے ، لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی کیا جائے ، اسی وقت یا اس کے بعد دو صاحب عدل آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لیا جائے ۔