اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۳

یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے ، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے ۔ عدت تک گھر اس کا ہے ۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے ، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس ے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کیس وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے ، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک، یا تین حیض آنے تک، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے ، یا عورت نا سمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی  ہو کر رہتا ہے ۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو (ہدایہ۔ الانصاف)۔

فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ  رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جائے ، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے ۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہو گا،اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہو گی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہو جائے گی۔