اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۱۸

اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہو گئی تو بچے کو دودھ پلائے گی ور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہو گی۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلوائے ۔چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے ۔
فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں:
ضحاک کہتے ہیں کہ ’’ بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا‘‘۔ اسی سے ملتی جلتی رائے قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے ۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا’‘ (ابن جریر)۔

ہدایہ میں ہے ، ’’ اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیچا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلائے ۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جائے گی۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجائے دوسری عورت سے اجرت پریہ کام لوں گا، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جائے گا۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اُجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا’’۔