اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۱۷

یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے ۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مر گیا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہو گئی ہو۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں:
1)۔ حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، قاضی شریح، ابو العالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے (آلوسی۔جصاص)۔
2)۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جائے اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ (البقرہ، آیت 233)۔
3)۔ حضرت جابرؓ بن عبد اللہ، حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ، حضرت حسن نصری، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے (جصاص)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کر سکتی ہے ، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے ۔
4)۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتاہے (جصاص)۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جائے ۔
5)۔ امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ اور امام زُفرؒ کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے ۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہو سکتا ہے (ہدایہ، جصاص)۔ یہی مسلک امام احمدؒ بن حنبل کا ہے (الانصاف)۔

6)۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ، البتہ اسے سکونت کا حق ہے (مُغنی المحتاج)۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدریؓ کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کر دیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں( ابو داؤد، نسائی، ترمذی)۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقُطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ۔ ’’بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ‘‘۔ یہی مسلک امام مالکؒ کا بھی ہے (حاشیۃ الد سوقی)۔