اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۱۶

اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر  ر جعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پراس کی سکو نت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہو تی ہے ۔اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو،تو خو ا ہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہویا قطعی طور پرا لگ کر دینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کی نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہو گا۔اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہو ا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقۂ  مَبتُوتہ(یعنی جسے  قطعی طور پرا لگ کر دینے والی طلاق دی گئی ہو ) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟یا صرف سکونت کا حق ر کہتی ہے ؟یا دو نو ں  میں سے کسی کی بہی حق دار نہیں ہے ؟
ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ۔یہ رائے حضرت عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین(امام زین العابد ین)،قاضی شُر یح اور ابراہیم  نخعی کی ہے ۔اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ،اور امام سُفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اس کی تائید و ارقطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جاب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی واجفقۃ، ’’ جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ’’۔
اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا  گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت ہو گی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے ۔بلیہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بقول  لھا السکنٰی و انفقۃ، ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کابھی‘‘امام ابو بکر جصاص احکام القرآن میں  اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ، ’’ ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو‘‘ اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کر چکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ ’’ آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہو چکا ہو‘‘ تو اس میں آپ نے پہلی، دوسری، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’ ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو‘‘ ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جائے گا۔ تیسیر دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔ اور غیر  حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں۔ اس سے معلوم ہو ا کہ کونت اور نفقہ کا وجوب در اصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے ۔ یہ مسلک سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، عطاء، شعبی، اوزاعی، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے ،اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔
تیسرا گروہ کہاتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ یہ مسلک حسن بصری، حماد، ابن ابی لیلیٰ، عمرو بن دینار، طاؤس، اسحاق بن راہویہ، اور ابو ثور کا ہے ۔ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن............ ولحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ۔’’ طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ............ اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا‘‘۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذٰ لِکَ اَمْراً، تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ‘‘۔اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے ۔ دوسرا استدلالفاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔
یہ فاطمہؓ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں، اور حضرت عمرؓ کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص ؓ المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کر دیا، اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے ۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گئے تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچیں، اور حضورؐ نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت۔ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: الما النفقہ و السکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لہۂ علیھا رجعۃ، فاذالم یکن لہ علیہحا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔’’ عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت‘‘(مسند احمد)۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔’’ لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت’’۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضورؐ نے ان کو پہلے ام شریک کے  گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو۔
لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں:
اولاً، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے  تنگ تھے ۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ ’’ ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا (جصاص)۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں ’’ ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا’’ (ابو داؤد)۔
ثانیاً، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کر دیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی۔ ابراہیم نَخعی کہتے ہیں کہجب حضرت عمر کو فاطمہؓ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتاوکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لقسل امأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و لنفقۃ۔ ’’ ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قسل کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے ۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مبتونہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ‘‘(جصاص)۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریا کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ’’ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کر سکتے ، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے ، اللہ کا حکم ہے لَا تُخءرِجُوْھُنَّ مِنْ؍بُیُوْتِھِنَّ‘‘ یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے ۔
ثالثاً، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی، حضرت عائشہؓ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے ۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا’’ فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے ‘‘ (بخاری) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں’’ فاطمہ کو کیا ہو گیا ہے ، وہ خدا سے ڈرتی نہیں؟‘‘ تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا’’ فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ‘‘۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی اک اظہار فرمایا اور کہا ’’ وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونِس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضورؐ نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرائی تھی‘‘۔

رابعاً، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہؓ بن زید سے ہوا تھا، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے (جصاص)۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے ۔