اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التغابن حاشیہ نمبر۵

اس کے چار مفہوم ہیں اور چاروں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں :
ایک یہ کہ وہی تمہارا خالق ہے ، پھر  تم میں سے کوئی اس کے خالق ہونے کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس حقیقت کو مانتا ہے۔ یہ مفہوم پہلے اور دوسرے فقرے کو ملا کر پڑھنے سے متبادر ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسی نے تم کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ تم کفر اختیار  کرنا چاہو تو کر سکتے ہو، اور ایمان  لانا چاہو تو لا سکتے ہو۔ ایمان و کفر میں سے کسی کے اختیار کرنے پر بھی اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے۔ اس لیے اپنے ایمان و کفر، دونوں کے تم خود ذمہ دار ہو۔ اس مفہوم کی تائید بعد کا یہ فقرہ کرتا ہے کہ ’’ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔ یعنی اس نے یہ اختیار دے کر تمہیں امتحان میں ڈالا ہے اور سہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تو تم کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب ایمان کی راہ اختیار کرتے ، مگر اس صحیح فطرت پر پیدا ہونے کے بعد تم میں سے بعض لوگوں نے کفر اختیار کیا جو ان کی خلقت و  آفرینش کے خلاف تھا، اور بعض نے ایمان کی راہ اختیار کی جو ان کی فطرت کے مطابق تھی۔ یہ مضمون اس آیت کو سورہ روم کی آیت 30 کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین پر جمدو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت نہ بدلی جائے، یہی بالکل راست اور درست دین ہے ‘‘۔ اور اسی مضمون پر وہ متعدد احادیث روشنی ڈالتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں خارج سے کفر و شرک اور گمراہی اس پر عارض ہوتی ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورہ روم، حواشی 42 تا 47)۔ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتب آسمانی نے بھی انسان کے پیدائشی گناہگار ہونے کا وہ تصور پیش نہیں کیا ہے جسے ڈیڑھ ہزار سال سے عیسائیت  نے اپنا بنیادی عقیدہ بنا رکھا ہے۔ آج خود کیتھولک علماء یہ کہنے لگے ہیں کہ بائیبل میں اس عقیدے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ بائیبل کا ایک مشہور جرمن عالم ریورینڈ ہر برٹ ہاگ (Haog ) اپنی تازہ کتاب Is Original  Sin In Scripture    میں لکھتا ہے کہ ابتدائی دور کے عیسائیوں میں کم از کم تیسری صدی تک یہ عقیدہ سرے سے موجود ہی نہ تھا کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے ، اور جب یہ خیال لوگوں میں پھیلنے لگا تو دو صدیوں تک عیسائی اہل علم اس کی تردید کرتے رہے۔ مگر آخر کار پانچویں صدی میں سینٹ آگسٹائن نے اپنی منطق کے زور سے اس بات کو مسیحیت کے بنیادی عقائد میں شامل کر دیا کہ ’’ نوع انسانی نے آدم کے گناہ کا وبال وراثت میں پایا ہے اور مسیح کے کفارے کی بدولت نجات پانے کے سوا انسان کے لیے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔‘‘

چوتھا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی تم کو عدم سے وجود میں لایا۔ تم نہ تھے اور پھر ہو گئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ اگر تم اس پر سیدھے اور صاف طریقے سے غور و فکر کرتے اور یہ دیکھتے کہ وجود ہی وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت تم دنیا کی باقی دوسری نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہو، تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے خالق کے مقابلہ میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار  کیا جو فکر صحیح کا تقاضا تھا۔