اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التغابن حاشیہ نمبر۱۵

یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ پہلے سورہ یونس میں فرمایا : وَیَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ، قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ ’’ وہ پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ حق ہے ؟ کہو، میرے رب کی قسم یہ یقیناً حق ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو‘‘(آیت 53)۔ پھر سورہ سبا میں فرمایا : وَقَا لَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَأ تِیْنَا السَّاعَۃُ، قُلْ بَلیٰ وَرَبِّی لَتَأ تِیَنَّ کُمْ۔ ’’ منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو، قسم ہے میرے رب کی وہ تم پر آ کر رہے گی‘‘ (آیت 30)۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کے آنے کی خبر قسم کھا کر دیں یا قسم کھائے بغیر دیں ؟  وہ جب اس چیز کو نہیں مانتا تو محض اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ یہ شخص کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا ہے ، اس لیے چاہے زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے ہی بہتان گھڑتے رہے ہوں ، اپنے دلوں میں وہ یہ تصور تک نہ کر سکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے بر حق ہونے کا اسے کامل یقین نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آپؐ محض آخرت کا عقیدہ ہی بیان نہیں کرتے تھے ، بلکہ اس کے لیے نہایت معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے۔ مگر جو چیز نبی اور غیر نبی کے درمیان فرق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر نبی آخرت کے حق میں جو مضبوط سے مضبوط دلائل دے سکتا ہے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نس یہی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے نہ ہونے کی بہ نسبت اس کا ہونا معقول تر اور اغلب تسلیم کر لیا جائے۔ اس کے برعکس نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالا تر ہے۔ اس کی اصل حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہو گی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے ، ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا۔ اور آخرت پر ایمان ایک نبی کے بیان ہی سے پیدا ہو سکتا ہے ، فلوسفی کا استدلال اپنے اندر یہ وقت نہیں رکھتا کہ دوسرا شخص تو در کنار، فلسفی خود بھی اپنی دلیل کی بنا پر اپنا ایمانی عقیدہ بنا سکے۔ فلسفی اگر واقعی صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ’’ ہونا چاہیے ‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ’’ ہے اور یقیناً ہے ‘‘ کہنا صرف ایک بی کا کام ہے۔