اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الجمعۃ حاشیہ نمبر۱۶

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو، یہ ایسا ہی ہے جیسے حالت اِحرام میں شکار کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا : فَاِذَا حَلَلْتُمْ فَا صْطَا دُوْ (الماعدہ۔2) ’’ جب احرام کھول چکو تو شکار کرو‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولنے کے بعد ضرور شکار کرو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد شکار پر کوئی پابندی باقی نہیں رہتی۔ چاہو تو شکار کر سکتے ہو۔ یا مثلاً سورہ نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فَانْکِحُوْ امَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ یہاں اگر چہ فَانْکِحُوْا بصیغۂ امر ہے۔ مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات قرائن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض و واجب ہے۔ خود اسی فقرے کے بعد متصلاً دوسرے ہی فقرے میں ارشاد ہوا ہے وَاذْکُرُو ا اللہَ کَثِیْراً۔ ’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔ یہاں بھی صیغۂ امر موجود ہے ، مگر ظاہر ہے کہ یہ استحباب کے معنی میں ہے نہ کہ وجوب کے معنی میں۔

اس مقام پر  یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ قرآن میں یہودیوں کے بست اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس امر سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہے جس طرح ہفتہ اور اتوار یہودیوں اور عیسائیوں کے شعار ملت ہیں۔ اور اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا ایک تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتے کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان (اگر اس کی فطرت میں کچھ اسلامی حِس موجود ہو) لازماً  اس غرض کے لیے جمعہ ہی کو منتخب کرے گا، بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامّل نہ کیا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اولین کان جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا  کہ اتوار کے بجائے ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا۔ قبل تقسیم کے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی جس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار ہی کو سینے سے لگائے رہتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اس سے زیادہ جب بے حسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی رائج کی جاتی ہے ، جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے ٹرکی میں کیا۔