اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الجمعۃ حاشیہ نمبر۱۲

یہ بات قرآن مجید میں دوسری مرتبہ یہودیوں کو خطاب کر کے کہی گئی ہے۔ پہلے سورہ بقرہ میں فرمایا گیا تھا ’’ ان سے کہو، اگر آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے اللہ کے ہاں مخصوص ہے تو پھر تم موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہر گز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے اُن کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ ظالموں کو خو جانتا ہے۔ بلکہ تم تمام انسانوں سے بڑھ کر، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر ان کو کسی نہ کسی طرح جینے کا حریص پاؤ گے۔ ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ ہزار برس جیے ، حالانکہ وہ لمبی عمر پائے تب بھی اسے یہ چیز عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ ان کے سارے کرتوت اللہ کی نظر میں ہیں‘‘ (آیات 94۔96) اب اسی بات کو پھر یہاں دہرایا گیا ہے۔ لیکن یہ محض تکرار نہیں ہے۔ سورہ بقرہ والی آیات میں یہ ات اس وقت کہی گئی تھی جب یہودیوں سے مسلمانوں کی کوئی جنگ نہ ہوئی تھی۔ اور اس سورۃ میں اس کا اعادہ اس وقت کیا گیا ہے جن ان کے ساتھ متعدد معرکے پیش آنے کے بعد عرب میں آخری اور قطعی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ ان معرکوں نے ، اور ان کے اس انجام نے وہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت کر دی جو پہلے سورہ بقرہ میں کہی گئی تھی۔ مدینے اور خیبر میں یہودی طاقت بلحاظ تعداد مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھی، اور بلحاظ وسائل ان سے بہت زیادہ تھی۔ پھر عرب کے مشرکین اور مدینے کے منافقین بھی ان کی پشت پر تھے اور یہودیوں کو مغلوب کیا وہ یہ تھی کہ مسلمان راہ خدا میں مرنے سے خائف تو درکنار، تہ دل سے اس کے مشتاق تھے اور سر ہتھیلی پر لیے ہوئے میدان جنگ میں اترتے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ خدا کی راہ میں لڑ رہے ہیں، اور وہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے۔ اس کے بر عکس یہودیوں کا حال یہ تھا کہ وہ کسی راہ میں بھی جان دینے کے لیے تیار نہ تھے ، نہ خدا کی راہ میں، نہ قوم کی راہ میں، نہ خود اپنی جان اور مال اور عزت  کی راہ میں۔ انہیں صرف زندگی درکار تھی، خواہ وہ کیسی ہی زندگی ہو۔ اسی چیز نے ان کو بزدل بنا دیا تھا۔