اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الصّف حاشیہ نمبر۷

اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صحیح ہیں :
ایک یہ کہ میں کوئی الگ اور نرالا دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے ۔ میں توراۃ کی تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تصدیق کر رہا ہوں ، جس طرح ہمیشہ سے خدا کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق توراۃ میں موجود ہیں ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ تم میری مخالفت کرو، تمہیں تو اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء نے دی تھی وہ آگیا۔
اور اس فقرے کو بعد والے فقرے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں ۔  اس  تیسرے معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کا اشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسول اللہ ﷺ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :
"خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔
(استثناء، باب18۔ آیات 15۔19)
یہ توراۃ کی صریح پیشن گوئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم ’’ بھائیوں ‘‘ سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی دوسری ایسی قوم ہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ وہ۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی بنی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ تین تمہارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لا محالہ بنی اسماعیل ہپی ہو سکتے ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی بنا پر ان کے نسبی رشتہ دار ہیں ۔ مزید براں اس پیشن گوئی کا مصداق بنی اسرائیل کاکوئی نبی اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایک نبی انہیں ، بہت سارے نبی آئے ہیں جن کے ذکر ے بائیبل بھری پڑی ہے ۔
دوسری بات اس بشارت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کے مانند ہو گا۔ اس سے مراد ظاہر ہے کہ شکل صورت یا حالات زندگی میں مشابہ ہونا تو نہیں ہے ، کیونکہ اس لحاظ سے کوئی فرد بھی کسی دوسرے فرد کے مانند نہیں ہوا کرتا۔ اور اس سے مراد محض وصف نبوت میں مماثلت بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ وصف ان تمام انبیاء میں مشترک ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد آئے ہیں ، اس لیے کسی ایک نبی کی یہخصوصیت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وصف میں ان کے مانند ہو۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے مشابہت کے خارج از بحث ہو جانے کے بعد کوئی اور وجہ مماثلت، جس کی بنا پر آنے والے ایک نبی کی تخصیص قابل رحم ہو، اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ وہ نبی ایک مستقل شریعت لانے کے اعتبار سے حضرت موسیٰ کے مانند ہو۔ اور یہ خصوصیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نبی بھی آئے تھے وہ شریعت موسوی کے پیرو تھے ، ان میں سے کوئی بھی ایک مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا۔

اس تعبیر کو مزید تقویت پیشین گوئی کے ان الفاظ سے ملتی ہے کہ ’’ یہ تیری (یعنی بنی اسرائیل کی) اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں  کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا‘‘۔ اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے ۔ اور بنی اسرائیل کی جس در خواست کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی شریعت ہم کو دی جائے تو ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے ۔ ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی۔ (ملاحظہ ہو البقرہ، آیات 55۔ 56۔63۔الاعراف، آیات 155۔171۔ بائیبل، کتاب خروج 17:19۔ 18)۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کر لی ہے ، اس کا ارشاد ہے کہ میں ان کے لیے ایک ایسا نبی برپا کروں گا جس کے منہ میں مَیں اپنا کلام ڈالوں گا۔ یعنی آئندہ شریعت دینے کے اس وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورِب پہاڑ کے دامن میں پیدا کیے گئے تھے ، بلکہ اب جو نبی اس منصب پر مامور کیا جائے گا اس کے منہ میں بس اللہ کا کلا م ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے خلق خدا کو سنا دے گا۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے  ؟ حضرت موسیٰ کے بعد مستقل شریعت صرف آپ ہی کو دی گئی، اس کے عطا کرنے کے وقت کوئی ایسا مجمع نہیں ہوا جیسا حورب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کو ہوا تھا، اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات پیدا نہیں کیے گئے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے ۔