اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الصّف حاشیہ نمبر۵

یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کا زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی (Freedom of Choice ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے یے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ہو ’’ توفیق‘‘ ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ ’’ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ‘‘۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سر گرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کی لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے ان کو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا۔