اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الممتحنۃ حاشیہ نمبر۱۷

اس معاملہ کی دو صورتیں تھیں اور اس آیت کا انطباق دونوں سورتوں پر ہوتا ہے : ایک صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات تھے ان سے مسلمانوں نے یہ معاملہ طے کرنا چاہا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے ہماری طرف آ گئی ہیں ان کے مہر ہم واپس کر دیں گے، اور ہمارے آدمیوں کی جو کافر بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے مہر تم واپس کر دو۔ لیکن انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا۔ چنانچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ان عورتوں کے مہر واپس دینے کے لی تیار ہو گئے جو مشرکین کے پاس مکہ میں رہ گئی تھیں، مگر مشرکوں نے ان عورتوں کے مہر واپس دینے سے انکار کر دیا جو مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آ گئی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مہاجر عورتوں کے جو مہر تمہیں مشرکین کو واپس کرنے ہیں وہ ان کو بھیجنے کے بجائے مدینے ہی میں جمع کر لیے جائیں اور جن لوگوں کو مشرکین سے اپنے دیے ہوئے مہر واپس لینے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اتنی رقم دے دی جائے جو اسے کفار سے وصول ہونی چاہیے تھی۔
دوسری صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات نہ تھے ان کے علاقوں سے بھی متعدد آدمی اسلام قبول کر کے دار الاسلام میں آ گئے تھے اور ان کی کافر بیویاں وہاں رہ گئی تھیں۔ اسی طرح بعض عورتیں بھی مسلمان ہو کر ہجرت کر آئی تھیں اور ان کے کافر شوہر وہاں رہ گئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ دار الاسلام ہی میں اَدلے کا بدلہ چکا دیا جائے۔ جب کفار سے کوئی مہر واپس نہیں ملنا ہے تو انہیں بھی کوئی مہر واپس نہ کیا جائے۔ اس کے بجائے جو عورت ادھر آ گئی ہے اس کے بدلے کا مہر اس شخص کو ادا کر دیا جائے جس کی بیوی ادھر رہ گئی ہے۔

لیکن اگر اس طرح حساب برابر نہ ہو سکے، اور جن مسلمانوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے وصول طلب مہر ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کے مہروں سے زیادہ ہوں، تو حکم دیا گیا کہ اس مال غنیمت سے باقی رقمیں ادا کر دی جائیں جو کفار سے لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھ آ گئے ہوں ابن عباسؓ کی روایت ہے جس شخص کے حصے کا مہر وصول طلب رہ جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم  یہ حکم دیتے تھے کہ اس کے نقصان کی تلافی مال غنیمت سے کر دی جائے (ابن جریر)۔ اسی مسلک کو عطاء، مجاہد، زہری، مسروق، ابراہیم نخعی، قتادہ، مقاتِل اور ضحاک نے اختیار کیا ہے۔ یہ سب حضرات کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے مہر کفار کی طرف رہ گئے ہوں ان کا بدلہ کفار سے ہاتھ آئے ہوئے مجموعی مال غنیمت میں سے ادا کیا جائے، یعنی تقسیم غنائم سے پہلے ان لوگوں کے فوت شدہ مہر ان کو دے دیے جائیں اور اس کے بعد تقسیم ہو جس میں وہ لوگ بھی دوسرے سب مجاہدین کے ساتھ برابر کا حصہ پائیں۔ بعض فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف اموال غنیمت ہی نہیں، اموال فَے میں سے بھی ایسے لوگوں کے نقصان کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اہل علم کے ایک بڑے گروہ نے اس مسلک کو قبول نہیں کیا ہے۔