اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الممتحنۃ حاشیہ نمبر۱۴

اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کرمدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گئے۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کر لیا  جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے، تو انہیں واپس نہ کیا جائے۔
اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنیٰ سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنیٰ روایات ہیں۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاءمنکم لم نردہ علیک مومن جاء کم مناردد تموہ علینا۔ ’’ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جائے گا اسے تم واپس کرو گے ‘‘۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں،  من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ۔ ’’ رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اسے وہ واپس کر دیں گے ‘‘۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم۔ ’’قریش میں سے جو شخص محمدؐ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جائے گا اسے وہ قریش کو واپس کر دیں گے ‘‘۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گئے تھے، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے  الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تم معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص  مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز  ہو سکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ قریش والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی ایک ایک  بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھائے بیٹھے تھے۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آ جاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لینے۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر گور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی، اور بعض حضرات (مثلاً واسی ابو بکر ابن عربی) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ  نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کر دی تھی۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا۔
اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ  کفار قریش کی طرف سے تھی، اور ان کی جانت سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھوائے تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یا تیکا منا رجل و ان کان علی دین کالا رددتہ الینا۔ ’’ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے، اگر چہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے ’’۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری، کتاب الشروط،باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہوگی۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے۔اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (امام زہری کی روایت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء۔ ’’ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ‘‘۔ (احکام القرآن، ابن عربی۔ تفسیر کبیر، امام رازی)۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی  میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا۔
معاہدے کے ان شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی، خواہ وہ کسی غرض سے آتی، اسے واپس دینے سے انکار کر دیتے۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتوں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کر لو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں، اور جب اس کا اطمینان ہو جائے تو انکو واپس نہ کرو۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل در آمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں  ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو ہے آئی ہو؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا، باقی سب کو واپس کر دیا جاتا تھا (ابن جریر بحوالہ ابن عباس، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن زید)۔

اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ باین پر اعتماد کیا جائے اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے  بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ باین پر اعتماد کریں گے۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے  عقیدے اور ایمان کے متعلق خو د جو خبر  دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع  اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہو جائے جو اس کی تردید کر رہی ہو۔ اور چوتھی  بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جائے گا، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہوگا، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو، الا یہ کہ کچھ دوسرے  قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں۔