اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الممتحنۃ حاشیہ نمبر۱۳

سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو۔ اس کی بہترین تشریح  وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور ان کی کافر ماں کے درمیان پیش آیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدلاعزّٰی کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکا کے درمیان آمد و رفت کا راستہ  کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئی اور کچھ تحفہ تحا ئف بھی لائیں۔ حضرت اسماءؓ کی اپنی روایت یہ ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوچھا، اپنی ماں سے مل لوں؟ اور کیا میں ان سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہوں؟ حضورؐ نے جواب دیا اس سے صلہ رحمی کرو (مسند احمد۔بخاری۔ مسلم)۔ حضرت اسماء کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔  بعد میں جب اللہ اور اس کے رسول کی اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں (مسند احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم )۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا اور اپنے کافر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں۔ اور اسی طرح ذمی مساکین پر صدقات بھی صرف کیے جا سکتے ہیں (احکام القرآن للجصاص۔ روح المعانی)۔