اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۹

یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جسکے، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا۔ اس پر مدینہ کے منافقین اور ابنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ی حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا، ان میں سے کوئی فعل بھی نا جائز نہیں ہے،بلکہ دونوں کو اللہ اذن حاصل ہے۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کار روائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ے کہ کسی فوج پر  جنگ کا بھوت سوار ہو جائے اور وہ دشمن کے ملا میں گھس کر کھیت، مویشی، باغات، عمارات،ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ ’’ جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں ‘‘۔ (البقرہ۔205)۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ قطعو امنھا ما کان موضعاً للقتال،‘‘ مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ‘‘ (تفسیر بیسابوری)۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جا سکے۔ امام اَوزاعی، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے۔
 ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کر سکتی تھی، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہو سکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اِذن کی بنا پر جائز ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، کفار کو مطمئن کرنا سے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے، یا بطور خود، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہو گئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو گئے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے۔

محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا تھا، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضورؐ سے دریافت کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضورؐ نے خود اس کا حکم دیا تھا (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن جریر)۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے (ابن جریر)۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کر دی (ابن جریر)۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہو گا (نسائی)۔  فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا۔ ان میں حضورؐ اجتہاد پر عمل فرماتے تھے۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی، لہٰذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے۔