اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۶

یعنی تباہی دو طرح سے ہوئی۔ باہر سے مسلمانوں نے محاصرہ کر کے ان کی قلعہ بندیوں کو توڑنا شروع کیا۔ اور اندر سے خود انہوں نے پہلے تو مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لی جگہ جگہ پتھروں اور لکڑیوں کی رکاوٹیں کھڑی کیاں اور اس غرض کے لیے اپنے گھروں کو توڑ توڑ کر ملبہ جمع کیا۔ پھر جب ان کو یقین ہو گیا کہ انہیں یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا تو انہوں نے اپنے گھروں کو، جنہیں کبھی بڑے شوق سے بنایا اور سجایا تھا، اپنے ہی ہاتھوں برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے کام نہ آ سکیں۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے انہوں نے اس شرط پر صلح کی کہ ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہتھیاروں کے سوا جو کچھ بھی ہم یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں تو چلتے ہوئے وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں اور کھونٹیاں تک اکھاڑ لے گئے، حتیٰ کہ بعض لوگو نے شہتیر اور لکڑی کی چھتیں تک اپنے اونٹوں پر لاد لیں۔