اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۳

اس مقام پر ایک بات آغاز ہی میں سمجھ لینی چاہیے تاکہ بنی نضیر کے اخراج کے معاملہ میں کوئی ذہنی الجھن پیدا نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی نضیر کا باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا کہ معاہدہ ختم ہو جاتا۔ لیکن جس وجہ سے ان پر چڑھائی کی گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت سی چھوٹی بڑی خلاف ورزیاں کرنے کے بعد آخر کار ایک صریح فعل ایسا کیا تھا جو نقض عہد کا ہم معنی تھا۔ وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے فریق معاہدہ، یعنی مدینہ کی اسلامی ریاست کے صدر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی کہ جب ان کو نقص معاہدہ کا الزام دیا گیا تو وہ اس کا انکار نہ کر سکے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دس دن کا نوٹس دے دیا کہ اس مدت میں مدینہ چھوڑ کر نکل جاؤ، ورنہ تمہارے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ نوٹس قرآن مجید کے اس حکم کے ٹھیک مطابق تھا کہ ’’ اگر تم کو کسی قوم سے خیانت (بد عہدی) کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو‘‘ (انفال۔ 58)۔ اسی لیے ان کے اخراج کو اللہ تعالیٰ اپنا فعل قرار دے رہا ہے، کیونکہ یہ ٹھیک قانون الہیٰ کے مطابق تھا۔ گویا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے نکالا۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اخراج کو اپنا فعل قرار دیا ہے آگے کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔