اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۲

اصل الفاظ ہیں لِاَوَّ لِ الْحَشْرِ۔ حشر کے معنی ہیں منتشر افراد کو اکٹھا کرنا، یا بکھرے ہوئے اشخاص کو جمع کر کے نکالنا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی ہیں پہلے حشر کے ساتھ یا پہلے حشر کے موقع پر۔ اب رہا یہ سوال کی اس جگہ اول حشر سے مراد کیا ہے، تو اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج ہے، اور اس کو ان کا پہلا حشر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کا دوسرا حشر حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا جب یہود نصاریٰ کو جزیرۃالعرب سے نکالا گیا، اور آخری حشر قیامت کے روز ہو گا۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد مسلمانوں کی فوج کا اجتماع ہے جو بنی نضیر سے جنگ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی یہ ہیں کہ ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لیے جمع ہی ہوئے تھے اور کشت و خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ جلا وطنی کے لیے تیار ہو گئے۔ بالفاظ دیگر یہاں یہ الفاظ باوّل وَھلہ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ’’ در اوّل جمع کردنِ لشکر‘‘۔ اور شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے ’’پہلے ہی بھیڑ ہوتے  ‘‘۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا مفہوم ہی ان الفاظ کا متبادر مفہوم ہے۔