اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۱۶

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس بنا پر نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ بنی النضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے تک ان مہاجرین کے لیے گزر بسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ اب حکم دیک گیا کہ یہ مال جو اس وقت ہاتھ آیا ہے، اور آئندہ جو امول بھی فَے کے طور پر ہاتھ آئیں۔ ان میں عام مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو حق بھی ہے، ان سے ایسے سب لوگوں کو سہارا دیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خطر ہجرت پر مجبور ہو کر دار الاسلام میں آئیں۔اس حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی النضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کے لیے دے رکھے تھے ان کو واپس کریے گئے۔ لیکن یہ خیال کر نا صحیح نہیں ہے کہ فَے میں مہاجرین کا یہ حصہ صرف اسی زمانہ کے لیے تھا۔ در حقیقت اس آیت کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک جو لوگ ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو کر کسی مسلم مملکت کے حدود میں پناہ لینے پر مجبور ہوں، ان کو بسانا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا اس ملک کی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، اور اسے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فَے میں سے بھی اس مد پر خرچ کرنا چاہیے۔