اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۳

عرب میں بساوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آ کر کہتا اَنتِ عَلَیّ کَظَہرِِِ اُمیّ۔ اس کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ ’’تومیرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘،لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ’’تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ‘‘۔ ا زمانے میں بی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں۔ اسی فعل کا نام ظِہار ہے۔ ظَہر عربی زبان میں استعارے کے طور پر سواری کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً سواری کے جانور کو ظَہر کہتے ہیں، کیونکہ اس کی پیٹھ پر آدمی سوار ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کہتے تھے کہ تجھے ظَہر بنانا میرے اوپر ایسا حرام ہے جیسے اپنی ماں کو ظہر بنانا، اس لیے یہ کلمات زبان سے نکالنا ان کی اصطلاح میں ’’ظِہار‘‘ کہلاتا تھا۔ جاہلیت کے زمانہ میں اہل عرب کے ہاں یہ طلاق، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قِطع تعلق کااعلان سمجھا جاتا تھا، کیونکہ ان کے نزدیک اس کے معنی یہ تھے کہ شوہر اپنی بیوی سے نہ رف ازدواجی رشتہ توڑرہا ہے بلکہ اسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ اسی بناء پر اہلِ عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی، مگر ظِہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
۴۔ یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے، کیونکہ اس نے آدمی کو جنا ہے۔ اسی بناء پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی، اور اس کے بارے میں عقل اخلاق، قانون، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی۔
۵۔ یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرناچاہئے، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبردار رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیئے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی، نانی، ساس، دودھ پلانے والی عورت اور اَزواجِ نبیؐ کو شامل کیا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے، کجا کہ عورت کو جو اسکی بیوی رہ چکی ہے۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانون حکم نکلا کہ ظِہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے۔