اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۲۸

یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم آپ سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گر گیا، یا اگر مجلس برخاست کر کے تمہیں اٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو تمہاری کچھ ذلت ہو گئی۔ رفع درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کس کو مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، اور کون زیادہ دیر تک آپ کے پاس بیٹھا۔ کوئی شخص اگر آپ کے قریب بیٹھ گیا ہو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے بڑا مرتبہ مل گیا۔ بڑا مرتبہ تو اسی کا رہے گا جس نے ایمان اور علم کی دولت زیادہ پائی ہے۔ اسی طرح کسی شخص نے اگر زیادہ دیر تک بیٹھ کر اللہ کے رسول کو تکلیف دی تو اس نے الٹا جہالت کا کام کیا۔ اس کے درجے میں محض یہ بات کوئی اضافہ نہ کر دے گی کہ اسے دیر تک آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس سے بدر جہا زیادہ بلند مرتبہ اللہ کے ہاں اس کا ے جس نے آپ کی صحبت سے ایمان اور علم کا سرمایہ حاصل کیا اور وہ اخلاق سیکھے جو ایک مومن میں ہونے چاہییں۔