اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۱۵

اصل میں لفظ کَبْت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں رسوا کرنا، ہلاک کرنا، لعنت کرنا، راندہ درگاہ کر دینا دھکے دے کر نکال دینا، تذلیل کرنا۔ ارشاد الہٰی  کا مدعا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور اس کے احکام، سے بغاوت کا جوا انجام پچھلے انبیا کی امتیں دیکھ فکی ہیں اس سے وہ لوگ ہر گز نہ بچ سکیں گے جواب مسلمانوں میں سے وہی روش اختیار کریں۔ انہوں نے بھی جب خدا کی شریعت کے خلاف خود قوانین بنائے، یا دوسروں بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کیا تب اللہ کے فضل اور اس کی نظر عنایت سے وہ محروم ہوئے، اور اسی کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کی زندگی ایسی گمراہیوں، بد کرداریوں اور اخلاقی و تمدنی برائیوں سے لبریز ہوتی چلی گئی جنہوں نے بالآخر دنیا ہی میں ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑا۔ یہی غلطی اگر اب امت محمدیہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقبول بارگاہ بنی رہے اور اللہ اسے ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے چلا جائے۔ اللہ کو نہ اپنے پچھلے رسولوں کی امت سے کوئی عداوت تھی، نہ اس رسول کی مات سے اس کا کوئی مخصوص رشتہ ہے۔