اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۱۴

مخالفت کرنے سے مراد اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو نہ ماننا اور ان کے بجائے کچھ دوسری حدیں مقرر کر لینا ہے۔ ابنجریر طبری اس آیت کی تفسیر یہ کرتے ہیں : ای یخالفون فی حدودہٖ و فرائضہ فیجعلون حدوداً غیر حدودہ۔ ’’ یعنی وہ لوگ جو اللہکی حدود اور اس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کی جگہ دوسرے حدیں تجویز کر لیتے ہیں ‘‘۔ بیضاوی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے : ای یدادو نھما ویداقونھما اویضعون او  یختادون حدوداً غیر حدود ھما۔ ’’ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں، یا ان کی مقرر کی ہوئی حدوں کے سوا دوسری حدیں خود وضع کر لیتے ہیں یا دوسروں کی وضع کردہ حدوں کو اختیار کرتے ہیں ‘‘۔ آلودی نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیر سے اتفاق کرتے ہوئے شیخ الاسلام سعد اللہ ثلَبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ اس آیت میں ان بادشاہوں اور حکام سوء کے لیے سخت وعید ہے جنہوں نے شریعت کی مقرر کردہ حدود کے خلاف بہت سے احکام وضع کر لیے ہیں اور ان کا نام قانون رکھا ہے ‘‘۔ اس مقام پر علامہ آلوسی شرعی قوانین کے مقابلے میں وضعی قوانین کی آئینی (یعنی اسلامی نقطہ نظر آئینی) حیثیت پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اس شخص کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے جو اس قانون کو مستحسن اور شریعت کے مقابلہ میں افضل قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ یہ زیادہ حکیمانہ اور قوم کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہے، اور جب کسی معاملہ میں اس سے کہا جائے کہ شریعت کا حکم اس کے بارے میں یہ ہے تو اس پر غصے میں بھڑک اٹھتا ہے، جیسا کہ ہم نے بعض ان لوگوں کو دیکھا ہے جن پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ‘‘۔