اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۱۳

یہاں کفر سے مراد منکر خدا  و رسالت نہیں ہے، بلکہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول کو ماننے کا اقرار و اظہار کرنے کے بعد بھی ہو طرز عمل اختیار کرے جو ایک کافر کے کرنے کا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ دراصل کافروں کا کام ہے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے بعد بھی اپنی مرضی چلاتے رہیں، یا جاہلیت کے طریقوں ہی کی پیروی کرتے رہیں۔ ورنہ سچے دل سے ایمان لانے والا تو کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا۔ یہی بات سورہ آل عمران میں بھی حج کی فرضیت کا حکم دینے کے بعد فرمائی گئی ہے کہ سَمَنْ کَفَرَفَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ العٰلَمِیْنَ، ’’ اور جو کفر کرے (یعنی اس حکم کی اطاعت نہ کرے ) تگو اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔ ان دونوں مقامات پر ’’کفر‘‘ کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ جو شخص بھی ظہار کرنے کے بعد کفارہ ادا کیے بغیر بیوی سے تعلق رکھے، یا یہ سمجھے کہ ظہار ہی سے بیوی کو طلاق ہو گئی ہے، یا استطاعت کے باوجود حج نہ کرے، اسے قاضی شرع کا فرد مرتد ٹھیرا دے اور سب مسلمان اسے خارج از اسلام قرار دے دیں۔ بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے لوگوں کا شمار مومنین میں نہیں ہے جو اس کے احکام کو قول یا عمل سے رد کر دیں اور اس امر کی کوئی پروا نہ کریں کہ ان کے رب نے ان کے لیے کیا حدود مقرر کی ہیں، کن چیزوں کو فرض کیا ہے، کن چیزوں کو حلال کیا ہے اور کیا چیزیں حرام کر دی ہیں۔