اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحدید حاشیہ نمبر۹

اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ الہ کا بخشا ہوا مال ہے ۔ تم بذاتِ خود اس کے مال نہیں ہو، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے ۔ لہٰذا مال کے اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو۔ نائب کا یہ کام نہیں ہے کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے ۔ کل یہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس تھا، پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا، پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے ۔ اس عارضی جانشینی کی توڑی سی مدت میں ، جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے ، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حال ہو۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں بین فرمایا ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مَابَقِیَ الّا کَتِفُھا ’’ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا’’ فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ’’ ایک شانہ کے سوا ساری بکری بچ گئی‘‘ یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صَرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ  ہے ؟ فرمایا اَنْتَسَدَّ قَ وا نت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأ مَلُ الغِنیٰ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفالان کذا ولفالن کذا وقد کان لفالن۔’’ یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کیس کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ لفاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت، او لبست فابلیتَ، او تصدیقت فامضیت؟ وما سویٰ ذٰ لک فذا ھب و تارکہ للناس۔ ’’آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ‘‘ (مسلم)۔