اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحدید حاشیہ نمبر۷

یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے ، بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور مومن کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ ہی فوراً ان سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنی حصہ ادا کرو، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کرے گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہو گا جو بعد میں یہ خدمات انجام دیں گے ۔ غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کیے جاتے ہیں جہ کہ انتہائی۔ اس لیے فحوائے کلام کے لحاظ سے یہاں اٰمِنُوْ ابِا للہِ وِرَسْوْلِہٖ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہو، اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔