اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحدید حاشیہ نمبر۱۲

بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتدائے آفرینش میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کر لیا گیا تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔
وَاذکُرُوْانِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْوَا ثَقَکُمْ بِہٖاِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیْم؍ٌ بَذاتِ الصُّدُورِ o (المائدہ۔ 7)
یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے ، جبکہ تم نے کہا ’’ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ’’ اور اللہ سے ڈروِ اللہ دلوں کا حال جانتا ہے ۔
حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ:
بَا یَعْنَا رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی السمع و الطا عۃ فی النشاط  والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیسُر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ (مسند احمد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے ، خوشحالی اور تنگ حالی، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے ، نیکی کا حکم سین گے اور بدی سے منع کریں گے ، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔