اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الواقعہ حاشیہ نمبر۸

مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اولین اور آخرین یعنی اگلوں اور پچھلوں سے مراد کون ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تک جتنی امتیں گزری ہیں وہ اولین ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لوگ آخرین ہیں۔اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ بعثت محمدی سے پہلے ہزارہا برس کے دوران میں جتنے انسان گزرے ہیں ان کے سابقین کی تعداد زیادہ ہو گی، اور حضورؐ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والے انسانوں میں سے جو لوگ سابقین کا مرتبہ پائیں گے ان کی تعداد کم ہو گی۔ دوسرا گروپ کہتا ہے کہ یہاں اولین و آخرین سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اولین و آخرین ہیں جن میں  سابقین کی تعداد کم ہوگی۔تیسرا گروہ کہتا ہے اس سے مراد ہر نبی کی امت کے اولین و آخرین ہیں، یعنی ہر نبی کے ابتدائی پیروؤں میں سابقین بہت ہونگے اور بعد کے آنے والوں میں وہ کم پائے جائیں گے۔ آیت کے الفاظ ان تینوں مفہوموں کے حامل ہیں اور بعید نہیں کہ یہ تینوں ہی صحیح ہوں کیونکہ در حقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مطلب بھی ان الفاظ سے نکلتا ہے اور وہ بھی صحیح ہوں، کیوں در حقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مطلب بھی ان الفاظ سے نکلتا ہے اور وہ بھی صحیح ہے کہ ہر پہلے دور میں انسانی آبادی کے اندر سابقین کا تناسب زیادہ ہوگا اور بعد کے دور میں ان کا تناسب کم نکلے گا۔ اس لیے کہ انسانی آبادی جس رفتار سے بڑھتی ہے، سبقت فی الخیرات کرنے والوں کی تعداد اسی رفتار سے نہیں بڑھتی۔ گنتی کے اعتبار سے یہ لوگ چاہے پہلے دور کے سابقین سے تعداد میں زیادہ ہوں، لیکن بحیثیت مجموعی دنیا  کی آبادی کے مقابلے میں ان کا تناسب گھٹتا ہی چلا جاتا ہے۔