اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الواقعہ حاشیہ نمبر۲۸

اوپر کا سوال لوگوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساختہ ہو اور اسی کی تخلیق سے وجود میں آئے ہو۔ اب یہ دوسرا سوال انہیں اس دوسری اہم حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ جس رزق پر  تم پلتے ہو وہ بھی اللہ ہی تمہارے لیے پیدا کرتا ہے۔ جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں ہے  کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے اندر نطفہ ڈال دے، زمین، جس میں یہ کاشت کی جاتی ہے، تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے۔ اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی ہے۔ اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے، تم نے فراہم نہیں کیے ہیں۔ اس کے اندر جو بیج تم ڈالتے ہو ان کو نشو و نما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اسی نوع کا درخت پھوٹے  جس وہ بیج ہے، تم نے پیدا نہیں کی ہے۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا،پانی، حرارت، بُرودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اسی کی پروردگاری کا کرشمہ ہے۔ پھر جب تم وجود میں اسی کے لانے سے آئے ہو، اور اسی کے رزق سے پل رہے ہو، تو تم کو اس کے مقابلہ  میں خود مختاری کا، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق آخرت کیسے پہنچتا ہے؟

اس آیت کا ظاہر استدلال تو توحید کے حق میں ہے، مگر اس میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر اگر آدمی تھوڑا سا مزید غور کرے تو اسی کے اندر آخرت کی دلیل بھی مل جاتی ہے۔ جو بیج زمین میں بویا جاتا ہے وہ بجائے خود مردہ ہوتا ہے، مگر زمین کی قبر میں جب کسان اس کو دفن کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر وہ نباتی زندگی پیدا کر دیتا ہے جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں شان بہار دکھاتی ہیں۔ یہ بے شمار مردے ہماری آنکھوں کے سامنے آئے دن قبروں سے جی جی کر اٹھ رہے ہیں۔ یہ معجزہ کیا کچھ کم عجیب ہے کہ کوئی شخص اس دوسرے عجیب معجزے کو ناممکن قرار دے جس کی خبر قرآن ہمیں دے رہا ہے، یعنی انسانوں کی زندگی بعد موت۔