اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الواقعہ حاشیہ نمبر۲۴

اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑا اہم سوال انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کو چھوڑ کر انسان اگر سرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کسی طرح پیدا ہوا ہے تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے۔ نہ اس کی تعلیم آخرت میں انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچا دیتا ہے مگر کیا اس نطفہ میں بچہ پیدا کرنے کی، اور لازماً انسان ہی کا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت آپ سے آپ پیدا ہو گئی ہے؟ یا انسان نے کود پیدا کی ہے؟ یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کر دی ہے؟ اور کیا یہ مرد کے، یا عورت کے، یا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں ہے کہ اس نطفے سے حمل کا استقرار کرا دے؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش، اور ہر بچے کی الگ صورت گری، اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اٹھے، کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے سوا کسی اور کا کام ہے؟ کیا اس میں کسی اور کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل ہے؟ کیا یہ کام ماں باپ خود کرتے ہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر کرتا ہے؟ یا وہ انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں جو خود اسی طرح پیدا ہوئے ہیں؟ یا سورج اور چاند اور تارے کرتے ہیں جو خود ایک قانون کے غلام ہیں؟ یا وہ فطرت (Nature) کرتی ہے جو بجائے خود کوئی علم، حکمت۔ ارادہ اور اختیار نہیں رکھتی؟ پھر کیا یہ فیصلہ کرنا بھی خدا کے سوا کسی کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا؟ خوبصورت ہو یا بد صورت؟ طاقتور ہو یا کمزور؟ اندھا بہرہ لنگڑا لولا ہو یا صحیح الاعضاء؟ ذہین ہو یا کند ذہن؟ پھر کیا خدا کے سوا کوئی اور یہ طے کر تا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کس وقت کس قوم کے اندر کن اچھی یا بری صلاحیتوں کے آدمی پیدا کرے جو اسے عروج پر لے جائیں یا زوال کی طرف دھکیل دیں؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کر ے گا کہ شرک یا دہریت کی بنیاد پر ن سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا معقول جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اور جب حقیقت یہ ہے تو خدا کے ساختہ و پرداختہ اس انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے خالق کے مقابلے میں آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے؟ یا اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی بجا لائے؟

توحید کی طرح یہ سوال آخرت کے معاملہ میں بھی فیصلہ کن ہے۔ انسان کی تخلیق ایک ایسے کیڑے سے ہوتی ہے جو طاقتور خورد بین کے بغیر نظر تک نہیں آ سکتا۔ یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے جو اسی کی طرح ایک حقیر سا خورد بینی وجود ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطہ آغاز ہے، اور یہ خلیہ بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اس کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس ذرا سے خلیے کو ترقی دے کر اللہ تعالیٰ 9 مہینے چند روز کے اندر رحم مادر میں ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیتا ہے، اور جب  اس کی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے تو ماں کا جسم خود ہی اسے دھکیل کر دنیا میں اُودھم مچانے کے لیے باہر پھینک دیتا ہے۔تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور شب و روز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا اس طرح انسانوں کو آج پیدا کر رہا ہے وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ان انسانوں کو دوبارہ کسی اور طرح پیدا نہ کر سکے گا۔