اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۴۲

یہاں سے آخر تک آلاء کا لفظ  نعمتوں کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور قدرتوں کے معنی میں بھی۔ اور ایک پہلو اس میں صفات حمیدہ کا بھی ہے۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو اس سلسلہ باین میں اس فقرے کا بار بار دہرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ توم جھٹلانا چاہتے ہو تو جھٹلا تے رہو، خدا ترس لوگوں کو تو ان کے رب کی طرف سے یہ نعمتیں ضرور مل کر رہیں گی۔ دوسرے معنی لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے نزدیک اللہ کا جنت بنانے پر قادر ہونا اور اس میں یہ نعمتیں اپنے نیک بندوں کو عطا کرنا غیر ممکن ہے تو ہوتا رہے، اللہ یقیناً اس کی قدرت رکھتا ہے اور وہ یہ کام کر کے رہے گا۔ تیسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تم نیکی اور بدی کی تمیز سے عاری سمجھتے ہو۔ تمہارے نزدیک وہ اتنی بڑی دنیا تو بنا بیٹھا ہے مگر اس میں خواہ کوئی ظلم کرے یا انصاف، حق کے لیے کام کرے یا باطل کے لیے، شر پھیلائے یا خیر، اسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ وہ نہ ظالم کو سزا دینے والا ہے، نہ مظلوم کی داد رسی کرنے والا۔ نہ خیر کا قدر شناس ہے نہ شر سے نفور۔ پھر وہ تمہارے خیال میں عاجز بھی ہے۔ زمین و آسمان تو وہ بنا لیتا ہے، مگر ظالموں کی سزا کے لیے جہنم اور حق کی پیروی کرنے والوں کو اجر دینے کے لیے جنت بنا دینے پر وہ قادر نہیں ہے۔ اس کے اوصاف حمیدہ کی یہ تکذیب آج تم جتنی چاہو کر لو۔ کل جب وہ ظالموں کو جہنم میں جھونک دے گا اور حق پرستوں کو جنت میں یہ کچھ نعمتیں دے گا، کیا اس وقت بھی تم اس کے ان اوصاف کو جھٹلا سکو گے؟