اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۳۱

یہاں آلاء کو قدرتوں کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھ جائے تو یہ دونوں معنی ایک ایک لحاظ سے مناسب نظر آتے ہیں۔ ایک معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ آج تم ہماری نعمتوں کی ناشکریاں کر رہے ہو اور کفر، شرک، دہریت، فسق اور نافرمانی کے مختلف رویے اختیار کر کے طرح طرح کی نمک حرامیاں کیے چلے جاتے ہو، مگر کل جب باز پرس کا وقت آئے گا اس وقت ہم دیکھیں کہ ہماری کس کس نعمت کو تم اتفاقی حادثہ، یا اپنی قابلیت کا ثمرہ، یا کسی دیوی دیوتا یا بزرگ ہستی کی مہر بانی کا کرشمہ ثابت کرتے ہو۔ دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ آج تم قیامت اور حشرو نشر اور حساب و کتا ب اور جنت و دوزخ کا مذاق اڑاتے ہو اور اپنے نزدیک اس خیال خام میں مبتلا ہو کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر جب ہم باز پرس کے لیے تم کو گھیر لائیں گے اور وہ سب کچھ تمہارے سامنے آ جائے گا جس کا آج تم انکار کر رہے ہو اس وقت ہم دیکھیں گے کہ ہماری کس کس قدرت کو تم جھٹلاتے ہو۔