اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۳

اصل میں لفظ بیان استعمال ہو ا ہے۔ اس کے ایک معنی تو اظہار ما فی  الضمیر کے ہیں، یعنی بولنا اور اپنا مطلب و مدعا بیان کرنا۔ اور دوسرے معنی ہیں فرق و امتیاز کی وضاحت، جس سے مراد اس مقام پر خیر و شر اور بھلائی اور برائی کا امتیاز ہے۔ ان دونوں معنوں کے لحاظ سے یہ چھوٹا سا فقرہ اوپر کے استدلال کو مکمل کر دیتا ہے۔ بولنا وہ امتیازی وصف ہے جو انسان کو حیوانات اور دوسرے ارضی مخلوقات سے ممیز کرتا ہے۔یہ محض قوت ناطقہ کام نہیں کر سکتی۔ اس لیے بولنا در اصل انسان کے ذی شعور اور ذی اختیار مخلوق ہونے کی صریح علامت ہے۔اور یہ ہو سکتی جو بے شعور اور بے اختیار مخلوق کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح انسان کا دوسرا اہم ترین امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک اخلاقی حِس (Moral Sense) رکھ دی ہے جس کی وجہ سے وہ فطری طور پر نیکی اور بدی، حق اور ناحق، ظلم اور انصاف، بجا اور بے جا کے درمیان فرق کرتا ہے، اور یہ وِجدان اور احساس انتہائی گمراہی و جہالت کی حالت میں بھی اس کی اندر سے نہیں نکلتا۔ ان دونوں امتیازی خصوصیات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے تعلیم کا طریقہ اس پیدائشی طریق تعلیم سے مختلف ہو جس کے تحت مچھلی کو  تیرنا اور پرندے کو اُڑنا، اور خود انسانی جسم کے اندر پلک کو جھپکنا، آنکھ کو دیکھنا، کان کو سننا، اور معدے کو ہضم کرنا سکھایا گیا ہے۔ انسان خود اپنی زندگی کے اس شعبے میں استاد اور کتاب اور مدرسے اور تبلیغ و تلقین اور تحریر و تقریر اور بحظ و استدلال جیسے ذرائع ہی کو وسیلہ تعلیم مانتا ہے اور پیدائشی علم و شعور  کو کافی نہیں سمجھتا۔ پھر یہ بات آخر کیوں عجیب ہو کہ انسان کے خالق پر اسکی رہنمائی کی جو ذمی داری عائد ہوتی ہے اسے ادا کرنے کے لیے اس نے رسول اور کتاب کو تعلیم کا ذریعہ بنایا ہے؟ جیسی مخلوق ویسی ہی اس کی تعلیم۔ یہ سراسر ایک معقول بات ہے ’’بیان‘‘ جس مخلوق کو سکھایا گیا ہو اس کے لیے قرآن ‘‘ ہی ذریعہ تعلیم ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی ایسا ذریعہ جو ان مخلوقات کے لیے موزوں ہے جنہیں بیان نہیں سکھایا گیا ہے۔