اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۲۹

اصل میں لفظ ثَقَلَان استعمال کیا ہوا ہے جس کا مدہ ثقل ہے۔ ثقل کے معنی بوجھ کے ہیں، اور ثَقَل اس بار کو کہتے ہیں جو سواری پر لدا ہوا ہو۔ ثَقَلین کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ دو لدے ہوئے بوجھ‘‘۔ اس جگہ یہ لفظ جن و انس کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیوں کہ یہ دوجوں زمین پر لدے ہوئے ہیں، اور چونکہ اوپر سے خطاب ان انسانوں اور جنوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے جو اپنے رب کی طاعت و بندگی سے منحرف ہیں، اور آگے بھی آیت 45 تک وہی مخاطب ہیں، اس لیے ان کو اَیُّھَا الثَّقَلَانِ کہہ کر خطاب فرمایا گیا ہے، گویا خالق اپنی مخلوق کے ان دونوں نالائق گروہوں سے فرما رہا ہے کہ اے وہ لوگوں جو میری زمین پر بار بنے ہوئے ہو، عنقریب میں تمہاری خبر لینے کے لیے فارغ ہوا جاتا ہوں۔