اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۱۶

یہاں موقع کی مناسبت سے آلاء کے معنی ’’عجائب قدرت‘‘ زیادہ موزوں ہیں، لیکن اس میں نعمت کا پہلو بھی موجود ہے۔ مٹی سے انسان جیسی، اور آگ کے شعلہ سے جن جیسی حیرت انگیز مخلوقات کو وجود میں لے آنا جس طرح خدا کی قدرت کا ایک عجیب کرشمہ ہے، اسی طرح ان دونوں مخلوقوں کے لیے یہ بات ایک عظیم نعمت بھی  ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف وجود بخشا بلکہ ہر ایک کی ساخت ایسی رکھی اور ہر ایک کے اندر ایسی قوتیں اور صلاحیتیں ودیعت فرما دیں جن سے یہ دنیا میں بڑے بڑے کام کرنے کے قابل ہو گئے۔ اگر چہ جنوں کے متعلق ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں، مگر انسان تو ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کو انسانی دماغ دینے کے ساتھ مچھلی یا پرندے یا بندر کا جسم دے دیا جاتا تو کیا س جسم کے ساتھ وہ اس دماغ کی صلاحیتوں سے کوئی کام لے سکتا تھا؟ پھر کیا یہ اللہ کی نعمت عظمیٰ نہیں ہے کہ جن قوتوں سے اس نے انسان کے دماغ کو سرفراز فرمایا تھا ان سے کام لینے کے لیے موزوں ترین جسم بھی عطا فرمایا؟ یہ ہاتھ، یہ پاؤں، یہ آنکھیں یہ کان، یہ زبان، اور یہ قامت راست ایک طرف، اور یہ عقل و شعور، یہ فکر و خیال، یہ قوت ایجاد و قوت استدلال، اور یہ صناعی و کاریگری کی صلاحیتیں دوسری طرف، ان دونوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ بنانے والے نے ان کے درمیان غایت درجے کی مناسبت رکھی ہے جو اگر نہ ہوتی تو دنیا میں انسان کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ پھر یہی چیز اللہ تعالیٰ کی صفات حمیدہ پر بھی دلالت کرتی ہے۔ آخر علم، حکمت، رحمت اور کمال درجہ کی قوت تخلیق کے بغیر اس شان کے انسان اور جن کیسے پیدا ہو سکتے تھے؟ اتفاقی حوادث اور خود بخود کام کرنے والے اندھے بہرے قوانین فطرت تخلیق کے یہ معجزے کیسے دکھا سکتے ہیں؟