اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۱۰

اصل الفاظ ہیں زمین کو"اَنام" کے لیے وضع کیا۔ وضع کرنے سے مراد ہے تالیف کرنا، بنانا، تیار کرنا، رکھنا، ثبت کرنا۔ اور اَنام عربی زبان میں خلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان اور دوسری سب سے زندہ مخلوقات شامل ہیں۔ ابن عبا کہتے ہیں کل شی ءفیہ الروح، اَنام میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے اندر روح ہے۔ مجاہد اس کے معنی بیان کرتے ہیں خلائق۔ قتادہ ابن زید اور شعبی کہتے ہیں کہ سب جاندار انام ہے ں۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ اِنس و جِن دونوں اِس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ یہ معنی تمام اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ  جو لوگ اس آیت سے زمین کو ریاست کی ملکیت بنانے کا حکم نکالتے ہیں وہ ایک فضول بات کہتے ہیں۔ یہ باہر کے نظریات لا کر قرآن میں زبردست ٹھونسنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کا ساتھ نہ آیت کے الفاظ دیتے ہیں نہ سیاق و سباق۔ اَنام صرف انسانی معاشرے کو نہیں کہتے بلکہ زمین کی دوسری مخلوقات بھی اس میں شامل ہیں۔ اور زمین کو اَنام کے لیے وضع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے وہ سب کی مشترک ملکیت ہو۔ اور سیاقِ عبارت بھی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ کلام کا مدعا اس جگہ کوئی معاشی ضابطہ بیان کرنا ہے۔ یہاں تو مقصود در اصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اس طرح بنایا اور تیار کر دیا کہ یہ قسم قسم کی زندہ مخلوقات کے لیے رہنے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے قابل ہو گئی۔ یہ آپ سے آپ ایسی نہیں ہو گئی ہے۔ خالق کے بنانے سے ایسی بنی ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے اس کو ایسی جگہ رکھا اور ایسے حالات اس میں پیدا کیے جن سے یہاں زندہ انواع کا رہنا ممکن ہوا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو  تفہیم القرآن، جد سوم النمل حواشی 72۔74 جلد چہارم، یسین، حواشی 29۔32۔المومن حواشی 90۔91، حم السجدہ، حواشی 11 تا 13۔ الزخرف، حواشی 6 تا 10 الجاثیہ، حاشیہ 7)