اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۱

یعنی اس قرآن کی تعلیم کسی انسان کی طبعزاد نہیں ہے بلکہ اس کا معلم خود خدائے  رحمان ہے۔ اس مقام پر یہ بات بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی کہ اللہ نے قرآن کی یہ تعلیم کس کو دی ہے، کیوں کہ لوگ اس کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے سن رہے تھے، اس لیے مقتضائے حال سے کلام کا یہ مدعا آپ سے آپ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔

آغاز اس فقرے سے کرنے کا پہلا مقصد تو یہی بتانا ہے کہ حضور خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ اس تعلیم کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے مزید برآں دوسرا ایک مقصد ور بھی ہے جس کی طرف لفظ رحمان اشارہ کر رہا ہے۔ اگر بات صرف اتنی ہی کہنی ہوتی کہ یہ تعلیم اللہ کی طرف سے ہے،نبی کی طبعزاد نہیں ہے تو اللہ کا اہم ذات چھوڑ کر کوئی اسم صفت استعمال کرنے کی حاجت نہ تھی، اور اسم صفت  ہی استعمال کرنا ہوتا تو محض اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے اسمائے الٰہیہ میں سے کوئی اسم بھی اختیار کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جب ی کہنے کے بجائے کہ اللہ نے، یا خالق نے، یا رزاق نے یہ تعلیم دی ہے، فرمایا یہ گیا کہ اس قرآن کی تعلیم رحمٰن نے دی ہے، تو س سے خود بخود یہ مضمون نکل آیا کہ بندوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کا نازل کیا جانا سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ وہ چونکہ اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے، اس لیے اس نے یہ گورا نہ کیا کہ تمہیں تریکی میں بھٹکتا چھوڑ دے، اور اس کی رحمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ یہ قرآن بھیج کر تمہیں وہ علم عطا فرمائے جس پر دنیا میں تمہاری راست روی اور آخرت میں تمہاری فلاح کا انحصار ہے۔