اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۹

اصل الفاظ ہیں فَاَوْ حٰٓی اِلیٰ عَبْدِہٖ مَاً اَوْحیٰ۔ اس فقرے کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ اس نے وحی کی اس کے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ اس نے وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی‘‘۔ پہلا ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جبریلؑ نے وحی کی اللہ کے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی‘‘۔ دوسرا  ترجمہ کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے وحی کی جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔ مفسرین نے یہ دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ مگر سیاق و سباق کے ساتھ زیادہ مناسبت پہلا مفہوم ہی رکھتا ہے اور وہی حضرت حسن بصری اور ابن زید سے منقول ہے ۔اس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ عبدہٖ کی ضمیر اوحیٰ کے فاعل کی طرف پھرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے پھر سکتی ہے جب کہ آغاز سورۃ سے یہاں تک اللہ کا نام سے سے آیا ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں ضمیر کا مرجع کسی خاص شخص کی طرف سیاق کلام سے صاف ظاہر ہو رہا ہو وہاں ضمیر آپ سے آپ اسی کی طرف پھرتی ہے خواہ اس کا ذکر پہلے نہ آیا ہو۔ اس کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّآ اَنْزَ لْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ ’’ ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے ‘‘۔ یہاں قرآن کا سے سے کہیں ذکر نہیں آیا ہے ۔ مگر سیاق کلام خود بتا رہا ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے وَلَوْ یُؤَ اخِذُ اللہُ النَّاسَ بَمَا کَسَبُوْ ا مَا تَرَکَ عَلیٰ ظَھْرِ ھَا مِنْ ھَآ بَّۃٍ۔ ’’ اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑنے لگے تو اس کی بیٹھ پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے ‘‘۔ یہاں آ گئے پیچھے زمین کا ذکر کہیں نہیں آیا ہے ۔ مگر سیاق کلام سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ اس کی پیٹھ‘‘ سے مراد زمیں کی پیٹھ ہے ۔ سورہ یٰس میں فرمایا گیا ہے وَمَآ عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْلَہٗ۔ ‘‘ہم نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے ۔‘‘۔ یہاں پہلے یا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے مگر سیاق کلام بتا رہا ہے کہ ضمیروں کے مرجع آپؐ ہی ہیں۔ سورہ رحمٰن میں فرمایا کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ، ’’ وہ سب کچھ جو اس پر ہے فانی ہے ‘‘۔ آ گئے پیچھے کوئی ذکر زمین کا نہیں ہے ۔ مگر عبارت کا انداز ظاہر کر رہا ہے کہ علیہا کی ضمیر اسی کی طرف پھرتی ہے ۔ سورہ واقعہ میں ارشاد ہوا اِنَّآ اَنْشَأْ نَا ھُنَّ اِنْشَآ ءً، ’’ ہم نے ان کو خاص طور پر پیدا کیا ہو گا‘‘۔ آس پاس کوئی چیز نہیں جس کی طرف ھُنَّ کی ضمیر پھرتی نظر آتی ہو۔ یہ فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ  مراد خواتین جنت ہیں۔ پس چونکہ اَوْحیٰ اِلیٰ عَبْدِہٖ کا یہ مطلب بہر حال نہیں ہو سکتا کہ جبریلؑ نے اپنے بندے پر وحی کی، اس لیے لازماً اس کے معنی یہی لیے جائیں گے کہ جبریلؑ نے اللہ کے بندے پر وحی کی، یا پھر یہ کہ اللہ نے جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر وحی کی۔