اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۴۸

اصل میں لفظ تَتَمَاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی شک کرنے کے بھی ہیں اور جھگڑنے کے بھی خطاب ہر سامع سے ہے ۔ جو شخص بھی اس کلام کو سن  رہا ہو اس کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں پیغمبروں سے جھگڑا کرنے کا جو انجام انسانی تاریخ میں ہو چکا ہے ، کیا اس کے بعد بھی تو اسی حماقت کا ارتکاب کرے گا؟ پچھلی قوموں نے یہی تو شک کیا تھا کہ جن نعمتوں سے ہم اس دنیا میں مستفید ہو رہے ہیں یہ خدائے واحد کی نعمتیں ہیں، یا کوئی اور بھی ان کے مہیا کرنے میں شریک ہے ، یا یہ کسی کی فراہم کی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ فراہم ہو گئی ہیں۔ اسی شک کی بنا پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے جھگڑا کیا تھا۔ انبیاء ان سے کہتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں تمہیں خدا نے ، اور اکیلے ایک ہی خدا نے عطا کی ہیں، اس لیے اسی کا تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اسی کی تم کو بندگی بجا لانی چاہیے ۔ مگر وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تھے اور اسی بات پر انبیاء سے جھگڑتے تھے ۔ اب کیا تجھے تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ قومیں اپنے اس شک اور اس جھگڑے کا کیا انجام دیکھ چکی ہیں؟ کیا تو بھی وہی شک اور وہی جھگڑا کرے گا جو دوسروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے ؟

اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح کے لوگ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے گزر چکے تھے اور قوم لوط خود حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں مبتلائے عذاب ہوئی تھی۔ اس لیے اس عبرت کے صحف ابراہیم کا ایک حصہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔