اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۲

مراد ہیں رسول اللہ ﷺ اور مخاطب ہیں قریش کے لوگ۔ اصل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ صَاحِبُکُمْ (تمہارا صاحب)۔ ’’صاحب ‘‘ عربی زبان میں دوست، رفیق، ساتھی، پاس رہنے والے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو ہوتے ہیں۔ اس مقام پر آپؐ کا نام لینے یا ’’ہمارا رسولؐ‘‘ کہنے کے بجائے ’’’’تمہارا صاحب ‘‘ کہہ کر آپؐ کا ذکر کرنے میں بڑی گہری معنویت ہے ۔ اس سے قریش کے لوگوں کو یہ حساس دلانا مقصود ہے کہ جس شخص کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ تمہارے ہاں بہر سے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی نہیں ہے اس سے تمہاری پہلے کی کوئی جان پہچان نہ ہو۔ تمہاری اپنی قوم کا آدمی ہے ۔ تمہارے ساتھ ہی رہتا بستا ہے ۔ تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، کس سیرت و کردار کا انسان ہے ، کیسے اس کے معاملات ہیں، کیسے اس کی عادات و خصائل ہیں، اور آج تک تمہارے درمیان اس کی زندگی کیسی رہی ہے ۔ اسے بارے میں منہ پھاڑ کر کوئی کچھ کہہ دے تو تمہارے اندر ہزاروں آدمی اس کے جاننے والے موجود ہیں جو خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بات اس شخص پر چسپاں ہوتی بھی ہے یا نہیں۔