سورۃ النجم حاشیہ نمبر۱۴ |
|
یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان آیات کو دیکھا تھا۔ اور چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملا لات (ملاقات) بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی، اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلیٰ پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ بھی اللہ نہ تھا، اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا۔ اگر آپ نے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی اللہ جل شانہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کر دی جاتی حضرت موسیٰ کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا لَنْ تَرَانِیْ، ’’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ‘‘ (المائدہ:143)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرف، جو حضرت موسیٰ کو عطا نہیں کیا گیا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کر دیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کر دیا جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ حضورؐ نے اپنے رب کو دیکھا تھا، بلکہ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ ’’ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔ (لِنُرِیَہٗ مِنْ ایَٰاتِنَا)، اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں’’(لَقَدْرَایٰ مِنْ ایٰٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ)۔ |